میڈیا رپورٹس کے مطابق نادرا نے اپنے تحریری جواب میں انٹیلی جنس رپورٹس کا حوالہ دیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ حافظ حمداللہ پاکستانی شہری نہیں۔تاہم حافظ حمداللہ کی جانب سے درخواست دائر کرنے والے ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار بلوچستان میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے والد، بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کے پاس بھی کمپیوٹرازڈ قومی شناختی کارڈز ہیں جبکہ ان کا ایک بیٹا مسلح افواج میں کمشنڈ افسر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
درخواست کے مطابق حافظ حمداللہ بلوچستان اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں اور نادرا کے پاس شہری کی شہریت سے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے اور دوسری صورت میں اس معاملے کو پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ،1951 کے مطابق دیکھنا چاہیے۔ نادرا نے کسی قانونی اختیار کے بغیر مذکورہ حکم جاری کیا۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار کے وکیل اور فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اس سے قبل 29 اکتوبر 2019 کو عدالت نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد حافظ حمد اللہ کی پاکستانی شہریت منسوخ کرنے کا نادرا کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔ ساتھ ہی عدالت نے نادرا سے اس معاملے پر 2 ہفتوں میں جواب طلب کیا تھا اور وزارت داخلہ اور نادرا کو تاحکم ثانی حافظ حمداللہ کے خلاف کسی بھی قسم کا اقدام اٹھانے سے روک دیا تھا۔
خیال رہے کہ 26 اکتوبر کو پیمرا نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ نادرا نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حمداللہ کو غیرملکی شہری قرار دیتے ہوئے پاکستانی شہریت منسوخ کردی ہے اور اس فیصلے کے بعد پیمرا نے انہیں پاکستانی ٹی وی چینلز پر مہمان کے طور پر بلانے سے منع کردیا ہے۔
پیمرا کی جانب سے اپنے اس اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ نادرا نے اپنے حکم نامے میں شناختی کارڈ منسوخ کرتے ہوئے حافظ حمداللہ صبور کو جاری کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ڈیجیٹل طور پر ضبط کرلیا۔
پیمرا کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ یہ فیصلہ اعلیٰ حکام کی اجازت کے بعد کیا گیا ہے۔