بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ملازمین کی تنخواہ میں کٹوتی کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملک میں کرونا وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں، اس لئے بحریہ ٹاؤن نے اپنے تمام ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کا اعلان کیا ہے۔
تنخواہوں میں کمی کا اطلاق ان ملازمین پر ہوگا جن کی تنخواہیں پچاس ہزار روپے سے زیادہ ہیں۔
تنخواہوں میں کمی کے نوٹس کا اطلاق بحریہ ٹاؤن کی طرف سے قائم کئے گئے ہسپتال میں کام کرنے والے ملازمین پر بھی نہیں ہوگا۔
بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جاری کئے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ ملازمین جن کی تنخواہیں 51 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے کے درمیان ہیں ان کی تنخواہ میں 20 فیصد کٹوتی ہو گی، جبکہ ایک لاکھ ایک ہزار سے تین لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والے ملازمین کی اجرت میں سے 40 فیصد کٹوتی کی جائے گی جبکہ وہ ملازمین جن کی تنخواہیں تین لاکھ روپے سے زیادہ ہیں، اُن کی تنخواہ سے پچاس فیصد کٹوتی کی جائے گی۔
نیا دور میڈیا نے بحریہ ٹاؤن میں ایک اہم عہدے پر کام کرنے والے ملازم سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کا اعلان ہوا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کیا بحریہ ٹاؤن میں ملازمین کی کوئی یونین نہیں جو اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کرے؟ انہوں نے کہا کہ یہاں کوئی زبان کھولنے کی جرات نہیں کرسکتا، یونین بنانا تو دور کی بات ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ بحریہ ٹاؤن میں ملازمین کی کوئی یونین نہیں ہے، جہاں وہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں حالانکہ یونین بنانے کی اجازت تو آئین پاکستان نے دی ہے مگر بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض پر کوئی قانون اور آئین لاگو نہیں ہوتا اور یہ پورے پاکستان کو پتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ملازمین کو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے آگاہ کیا گیا تھا کہ ہم معاشی تنگدستی میں ہیں مگر ملازمین کو نکالا نہیں جائے گا بلکہ اُن کی تنخواہوں سے کٹوتی کی جائے گی۔
بحریہ ٹاؤن کے ملازم نے مزید کہا کہ یہاں کے ملازمین ایک طرف یونین نہیں بناسکتے تو دوسری جانب ملک کے اتنے بڑے میڈیا سے بھی اُن کو کوئی اُمید نہیں کیونکہ یہ تماشا پورے پاکستان نے ایک نامور ٹی وی پروگرام میں دو اینکروں اور ملک ریاض کے درمیان ایک پلانٹڈ ٹی وی انٹرویو میں دیکھا تھا کہ میڈیا کس کے ہاتھ میں ہے۔
ملازم نے کہا کہ ایک دو بار ہم نے اپنے مسئلے اُٹھائے تھے تو ایک معروف ٹی وی چینل کے رپورٹر اور کیمرہ مین نے تمام مسائل کی ویڈیو ریکارڈ کی مگر وہ ٹی وی پر نشر نہ ہوسکی اور نہ ہی اخبار میں خبر شائع ہوئی، بعد میں صحافی نے معذرت کی کہ ملک صاحب نے ٹی وی مالک سے بات کر کے انٹرویو روکوا دیا ہے۔