پروین کو چھ مہینے راولپنڈی اور اسلام آباد کی سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد کوئی خاطر خواہ نوکری نہیں ملی تو ایک مقامی غیرسرکاری تنظیم میں ٹیلیفون آپریٹر بھرتی ہوئیں اور ان کو ماہانہ تنخواہ دس ہزار روپے ملنے لگی۔ 10 ہزار میں رہائش کے خرچے برداشت کرنا بھی ناممکن تھا، اور اس تنخواہ میں والدین کا علاج کرنا ایک خواب تھا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب پروین پر زمین تنگ ہونا شروع ہوئی تو انھوں نے سیکس ورکر بننے کا فیصلہ کیا اور سوشل میڈیا پر کئی لوگوں سے دوستی کرنے کے بعد وہ باقاعدہ طور پر ایک سیکس ورکر بن گئیں۔
پروین نے کہا کہ شروع شروع میں فیس بک پر ہر کوئی یہی کہتا تھا کہ مجھے آپ سے پیار نہیں عشق ہے مگر کچھ ہی لمحوں بعد وہ اپنا اصل چہرہ دکھا دیتا تھا اور بات آخرکار جسم تک آجاتی تھی مگر اس عمل میں اُن کی بھی کوئی غلطی شامل نہیں تھی کیونکہ میں غربت سے مجبور تھی اور وہ اپنے ہوس سے، اور ہم دونوں اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک تھے، اس لئے مجھے نہ کبھی برا لگا اور نہ اُن سے کوئی نفرت ہوئی۔ اگر میں انکار کرتی تو وہ لوگ کبھی مجھے جسم دکھانے پر مجبور نہیں کرتے مگر اُن کی جنگ جنسی ہوس سے تھی اور میری جنگ غربت سے۔
پروین کہتی ہیں کہ جب کوئی ویڈیو کال پر مجھ سے جسم دکھانے کی فرمائش کرتا ہے تو میں اُن سے کہتی ہوں کہ میں اتنے پیسوں کے بدلے جسم کے یہ یہ حصے دکھاؤں گی اور یوں میں اس دلدل میں چلتی گئی اور کچھ ہی وقت میں باقاعدہ ایک سیکس ورکر بن گئی۔ جب بھی کوئی گاہگ مجھے لینے کے لئے آتا تھا تو میں اپنے ہاسٹل سے دور ایک جگہ پر کھڑی ہوجاتی تھی تاکہ کسی کو شک نہ ہو کہ میں ایک سیکس ورکر ہوں اور یوں میں اس کے ساتھ کچھ لمحے گزارنے چلی جاتی تھی۔
پروین کہتی ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور سماجی محفلوں میں ایسے لوگوں سے شناسائی ہوگئی جن کی کہانیاں مجھ سے ملتی جلتی تھیں، کوئی مجبور تھی تو کسی کو گھر کی جانب سے قیمتی سامان خریدنے کے پیسے نہیں ملتے تھے، کیونکہ وہ دوسرے شہروں سے راولپنڈی اور اسلام آباد آئے تھے اور احساس کمتری کا شکار رہتے تھے تو انھوں نے بھی اس راستے کا انتخاب کیا۔ آخر کار ہم نے راولپنڈی میں ایک جگہ پر گھر لیا مگر تین مہینے گزرنے کے بعد پڑوسیوں کو شک ہوا اور ہمیں وہاں سے نکال دیا گیا۔ پھر جب ہمارا اثر و رسوخ بڑھتا گیا تو ہم نے ایک پوش ہاؤسنگ سوسائٹی میں کرائے پر مکان لیا۔
پروین کہتی ہیں کہ میرے والدین جب مجھ سے پوچھتے تھے کہ آپ شہر میں کیا کام کرتی ہو تو میرا ایک ہی جواب ہوتا تھا بابا ایک سکول میں پڑھا رہی ہو اور شام کے وقت ٹیوشن بھی پڑھاتی ہو اس لئے خرچہ بن جاتا ہے۔ اگر میں اُن کو بتاتی کہ میں ایک سیکس ورکر ہوں تو اُن کا دل تو اُسی وقت پھٹ جاتا۔
خیر وہ تو دو سال پہلے اس دنیا سے چلے گئے، پروین نے ایک لمبی سانس لی۔
پروین نے مزید کہا کہ میرے ساتھ 25 لڑکیاں کام کرتی تھی اگر وہ ایک دو گھنٹوں کے لئے کسی کے پاس چلی جاتی ہیں تو پانچ ہزار روپے لیتے ہیں، جس میں تین ہزار اُن کے اور دو ہزار مکان کے کرائے، بجلی، گیس اور دیگر اخراجات میں میرے پاس آتے ہیں۔ اگر کوئی گاہک رات کے لئے آرڈر کر لے تو پھر 15 سے 20 ہزار روپے چارج کرتے ہیں اور اس میں لڑکی کو بھی منافع ہوتا ہے اور مجھے بھی۔
پروین نے مزید بتایا کہ کرونا وائرس لاک ڈاؤن کے بعد لوگوں کا آنا جانا کم ہوا ہے اور حالات یہاں تک آ گئے ہیں کہ اب کوئی گاہک فون بھی نہیں اُٹھاتا تو صاحب جسم کس کو بیچیں؟
پروین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو یہی ڈر ہے کہ یہ وائرس ہمارے جسم کی پیداور ہے۔ اس وقت 12 لڑکیاں تقریباً اپنے اپنے شہروں کو واپس جاچکی ہیں اور ٹیلیفون بھی کرتی رہتی ہیں کہ باجی تنگدستی ہے کچھ بندوبست کرو۔ مگر میرے پاس بھی کوئی سہارا نہیں ہوتا اور نہ میں کوئی کارخانہ چلا رہی ہوں کہ ان کو پیسے ادا کروں۔ وہ بیچاری بھی میری ڈانٹ ڈپٹ سے فون بند کردیتی ہیں۔
پروین کہتی ہیں کہ صاحب ہم سیکس ورکرز کیا کریں۔ خواجہ سرا، غریب اور معذور افراد تو حکومت اور مخیر حضرات کے پاس جاکر راشن لے سکتے ہیں مگر ہم اُن کو یہ بتا دیں کہ صاحب ہم سیکس ورکرز ہیں ہمیں بھی راشن اور پیسے دو۔ کیا ہم لوگوں کے سامنے اپنا تماشہ بنائیں کہ ہم جسم بیچتے ہیں۔ ہم بھوک سے مرجائیں گے لیکن اپنی شناخت کسی کے سامنے نہیں لاسکتے کیونکہ اگر میرے بھائیوں کو اب بھی پتہ چلا تو مجھے زندہ جلا دیں گے۔
سارہ علی خان کا تعلق ویسے تو پاکستان کے ایک دور دراز علاقے سے ہے مگر اُن کا خاندان گذشتہ 10 سالوں سے برف خانہ چوک کے ایک پانچ مرلہ کرائے کے گھر میں آباد ہے۔ سارہ علی خان کے والد ایک پیٹرول پمپ میں سیکورٹی گارڈ تھے مگر بعد میں غربت اور غلط دوستوں کی صحبت نے ان کو ہیروئین پینے کی لت پر لگایا اور کچھ عرصہ پہلے وہ فالج کے حملے میں اپاہچ ہو گئے۔
سارہ ابھی گیارہویں جماعت میں پڑھتی تھیں کہ اُن کے والد کو ہیروئین پینے کی لت لگ گئی اور گھر میں فاقوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ والدہ بھی بیمار تھیں اور سارہ کے دو چھوٹے بھائی تھے، جو محنت مزدوری کرنے کے لائق نہیں تھے۔ ایسے میں ایک سارہ ہی آخری آپشن تھی جس نے روٹی کی خاطر جسم بیچنے کو ترجیح دی اور پوچھ گچھ کے بعد وہ راولپنڈی کے علاقے صادق آباد میں مقیم ایک آنٹی تک پہنچ گئی، جو گذشتہ کئی سالوں سے لڑکیوں کی سپلائی کا کام کرتی تھی۔
سارہ کہتی ہیں کہ وہ روزانہ دو سے تین جگہوں پر جاتی تھیں اور انٹی کو اس کے بدلے چھ ہزار روپے ملتے تھے مگر ہمیں ماہانہ صرف 30 ہزار روپے ملتے تھے، جس سے گھر کے روٹی پانی کا نظام چلتا تھا۔ مگر اب کاروبار بلکل رک گیا ہے اور انٹی لوگوں کو فون کر کے منت کرتی ہے کہ بھائی پانچ سو روپے دو مگر آگے سے کوئی بھی ہاں نہیں کرتا کیونکہ ہر کسی کو کرونا سے ڈر ہے۔
سارہ نے کہا کہ روٹی تو آدمی کو چوک سے بھی مل جاتی ہے مگر گھر کے کرائے، بجلی اور گیس کا بل کہاں سے دیں۔ جب نہ کوئی کاروبار ہے اور نہ کوئی جسم لینے کو راضی ہے۔ صاحب ہمارے رشتہ داروں کو پتہ نہیں کہ میں ایک سیکس ورکر ہوں اور امی بتاتی ہیں کہ سارہ اسلام آباد میں ایک کوٹھی پر کام کرتی ہے۔ اگر اُن کو معلوم ہوا کہ میں یہ کام کرتی ہوں تو پورا خاندانی نظام برباد ہوجائے گا اور کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوں گے۔
نوٹ: موضوع کی حساسیت اور رازداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سیکس ورکرز کے نام اور پتے تبدیل کئے گئے ہیں۔