حیا اور تہذیب سے عاری پاکستانی سیاست ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جارہی ہے

حیا اور تہذیب سے عاری پاکستانی سیاست ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جارہی ہے
کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر پاکستانی سیاست میں شروع سے اور بالخصوص پچھلے کچھ عرصہ سے جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ پاکستانی سیاست حیا اور تہذیب سے بھی عاری ہے۔ اس بدتہذیبی کا سلسلہ ویسے تو بہت پرانا ہے اور میرے علم کے مطابق ایوب کی الیکشن مہم سے شروع ہوتا ہے جب اس نے مادر ملت فاطمہ جناح کی کردار کشی پر مبنی مہم صرف اس بنا پر چلائی کیوں کہ وہ بھی الیکشن میں حصہ لے رہی تھیں۔ اس کے بعد تقریباً ہر جمہوری دور میں یہ سلسلہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا گیا۔

پھر پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے دور بھی ہم سب کے سامنے ہیں جہاں ایک دوسرے پر بارہا کیچڑ اچھال کر کردار کشی کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد تحریک انصاف بھی اس میں کار خیر سمجھ کر حصہ ڈالتی رہی۔ اس وقت ملک کی صورتحال بہت خطرناک ہو چکی ہے اور سیاسی کردار اور ان کے اندھے مقلد مخالفین کے نام بگاڑ کر پکارنا شاید ثواب سمجھ کےکر رہے ہیں۔ اگر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جائیں تو تہذیب سے عاری سیاسی بدتمیزی کا ایک طوفان برپا نظر آتا ہے۔ اگر کسی جماعت کے اندھے مقلد سے اس کی سیاسی جماعت کی تعریف کریں تو سب اچھا ہے اور اگر انصاف کا دامن تھام کر ان کے سیاسی رہنما کی کسی بات پراعتراض کر دیں تو وہ ہو سکتا ہے گالم گلوچ سے شروع ہو کر مرنے مارنے پر اتر آئے۔

اب اگر موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو میرے خیال میں متحدہ اپوزیشن اگر ایک برس اور صبر کر لیتی اور عمران خان کو پانچ برس پورے کرنے دیتی تو ان کی حکومت کی ناقص کارکردگی کی بنا پر زیادہ کامیابی سے ووٹ لینے کی پوزیشن میں ہوتی۔ میری کچھ دوستوں سے اس بارے میں بات چیت ہوئی جن کا یہی کہنا تھا کہ ایسا ہو تو جاتا مگر ایمپائر ہی ایسا نہ چاہے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔

ابھی عمران خان بھی صرف ایک ہی پرانا راگ الاپ رہے ہیں کہ جو کرا رہا ہے امریکہ کرا رہا ہے۔اس کی بجائے اگر وہ اپنی حکومت کی گزشتہ کارکردگی اور دوبارہ آنے کی صورت میں ممکنہ قابل عمل منصوبے عوام کو بتائیں تو اس سے ان کا ووٹ بنک بڑھنے کا چانس اور زیادہ ہے۔ گو اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ مخالف بیانیہ سے پاکستانیوں میں ان کی سیاسی مقبولیت بڑھی ہے۔ میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ ان کا یہ نعرہ حقیقت کے کتنا قریب ہے اور اگر قریب بھی ہے تو اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ابھی ملک میں جو ہلڑبازی جاری ہے اس سے نہ صرف ملک کو قومی سطح پر نقصان ہو رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا بہت برا تاثر جا رہا ہے۔ اس ہلڑبازی کے بعد بھی ایمپائر کا کہنا ہے کہ وہ نیوٹرل ہے جو کہ اچھی بات ہے مگر یہ نیوٹرل ہونا اسی صورت کارآمد ہو گا کہ وہ مستقل طور پر نیوٹرل ہو جائیں اور ملک کے کسی ادارے کا پارلیمنٹ کے علاوہ سیاست سے کوئی تعلق نہ ہو۔

اگر ملک میں موجودہ ہلڑ بازی جاری رہی تو ملک میں جتنی نفرت سیاسی طور پر عوام میں بھی پھیل چکی ہے، اس میں کچھ بعید نہیں کہ حالات خانہ جنگی کی طرف چلے جائیں۔ خان صاحب سمیت تمام جماعتوں کے رہنماؤں کو ہار برداشت کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کرنا چاہیۓ۔ تمام سول و عسکری اداروں کو بشمول عدلیہ غیر جانبدار رہنا ہو گا اور انصاف پر مبنی فیصلے کرنے ہوں گے جن سے ان کا وقار بلند رہے۔

ابھی تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کو اخلاقیات سے عاری گفتگو کر نے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر سب کو تماشا دکھانے کی بجائے تہذیب کے دائرے میں رہ کر دلیل سے گفتگو کرنی چاہیۓ۔ اس تمام ہلڑ بازی کو روکنے میں عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے۔ چونکہ ایمپائر کے بقول وہ نیوٹرل ہے جو یقیناً اچھی بات ہے اس لئے عدالت عظمی کو چاہیۓ کہ ملک میں نئی جمہوری حکومت کے قیام کے لیۓ الیکشن کا فی الفور انعقاد اپنی نگرانی میں کرانے کا حکم جاری کرے۔ میراعمران خان کی کچھ باتوں سے اختلاف اپنی جگہ مگر ان کا فوری الیکشن کرانے کا مطالبہ یقیناً جائز اور جمہوریت کے عین مطابق ہے۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔