اس نظام نے کرنسی کی قدر وقیمت کو اندرون ملک اور بیرون ملک، بین الاقوامی تجارت میں استحکام فراہم کر رکھا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سونے کی جو قیمت 1890ء میں تھی، وہی قیمت کم و بیش 1910ء میں بھی تھی۔ آج دنیا میں اس قدر سونا اور چاندی موجود ہے جو دنیا کی اصل معیشت یعنی کاروباری معاملات جیسے خوراک، کپڑے، رہائش، اشیائے تعیش، صنعتی مشینری، ٹیکنالوجی اور دیگر اشیاء کی خرید وفروخت کے لیے کرنسی کے طور پر کافی ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ اندازِ معیشت نے کرنسی کی پیداوار کی طلب میں اس قدر اضافہ کر دیا جسے سونے اور چاندی کے ذخائر پورا نہیں کر سکتے تھے۔
ریاستوں نے قیمتی دھات کے پیمانے کو چھوڑ دیا، لہٰذا کرنسی نوٹ کی بنیاد کسی قیمتی دھات کی بجائے اس نوٹ کو جاری کرنے والی ریاست کی طاقت پر منحصر ہوگئی، جس کے نتیجے میں ریاستوں کے پاس زیادہ سے زیادہ کرنسی نوٹ چھاپنے کا اختیار آگیا۔
اب کرنسی کی مضبوطی کو برقرار رکھنے کے لیے بنیاد سونا یا چاندی نہیں رہے جس کے نتیجے میں ہر نیا چھپنے والا نوٹ پہلے نوٹ کے مقابلے میں کم قدر وقیمت رکھتا ہے۔ چونکہ کرنسی نوٹ اشیا اور خدمات کے تبادلے میں استعمال ہوتے ہیں، اس لیے کرنسی کی قدر وقیمت کا مکمل خاتمہ تو نہیں ہوتا لیکن اس میں مسلسل کمی ہوتی رہتی ہے۔ خریداری کے لیے کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اشیا اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا روپیہ جو برطانوی قبضے سے قبل 11 گرام چاندی کے برابر قیمت رکھتا تھا اب 200 سالہ سرمایہ دارانہ نظام سے گزرنے کے بعد ایک گرام چاندی کے 900 ویں حصے کے برابر قیمت رکھتا ہے۔
آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے حکمران ہماری کرنسی کی قدر میں کمی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری برآمدات مغربی ممالک کے لیے سستی ہو جاتی ہیں جبکہ ہماری درآمدات اور پاکستان میں ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے، جس میں سودی قرضے بھی شامل ہیں۔
لہٰذا جنوری 2001ء میں 59 روپے میں ایک ڈالر خریدا جاتا تھا لیکن اپریل 2022ء میں روپیہ اس قدر کمزور ہو گیا کہ 185 روپے میں ایک ڈالر خریدا جا رہا تھا۔ ہر گزرتے سال روپے کی قدر میں کمی کے نتیجے میں اس کی قوت خرید بھی کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ قیمتیں اس قدر بڑھتی جا رہی ہیں کہ اکثر لوگوں کے لیے گوشت خریدنا ناممکن، پھل خریدنا عیاشی اور سبزیوں کی خریداری ایک بوجھ بن گئی ہے۔
آج روپے کی قیمت کچھ دہائیوں قبل پیسے کی قیمت سے بھی کم ہو گئی ہے۔ حکمرانوں کے دعوؤں کے برعکس روپیہ کسی بھی وقت ردی کے کاغذ میں تبدیل ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں قیمتوں میں انتہائی زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت مسلسل نوٹ چھاپ رہی ہے جس کے بہت ہی خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں اور یوں حکومت کرنسی کی قبر کھود رہی ہے، جو معیشت کے لیے خون کی حیثیت رکھتی ہے۔
آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کون سےعوامل ہیں جن کی وجہ سے حکومتوں کو سونے اور چاندی کے محفوظ ریاستی ذخائر سے زائد کرنسی چھاپنے کی ضرورت پڑتی ہے، تاکہ ان عوامل کا تدارک کیا جا سکے۔ حالیہ افراطِ زر کی ایک بڑی وجہ بجٹ کے خسارہ کو پورا کرنے کے لیے حکومت کا مسلسل قرض پر انحصار ہے۔ حکومت کا قرض اس وقت تمام حدود وقیود عبور کر چکا ہے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق ملک کا مجموعی قرض 15 ٹریلین روپے کی بلند ترین سطح پر ہے۔ یہ اعدادوشمار اپریل 2022ء کے ہیں۔ عمومی طور پر حکومت قرض یا تو اپنی معیشت سے یعنی بینکوں اور بڑے سرمایہ داروں سے سود پر حاصل کرتی ہے یا اپنے مرکزی بینک یعنی سٹیٹ بینک سے۔ حالیہ برسوں میں بجٹ کے خسارہ کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے سٹیٹ بینک سے بے تحاشا قرض کے حصول پر انحصار کیا ہے۔
اس اقدام کو ماہرینِ معاشیات نوٹ چھاپنے کے عمل سے تعبیر کرتے ہیں جس سے کرنسی کے حجم میں اضافہ ہوا جو کہ افراطِ زر پر منتج ہوا۔ بجٹ کے خسارہ کو مسلسل نوٹ چھاپ کر پورا کئے جانے کا لازمی نتیجہ بڑھتا ہوا افراطِ زر ہی ہوتا ہے۔ جب حکومت یہ قرض اپنے کمرشل بینکوں سے حاصل کرتی ہے تو ان بینکوں کے ریزروز (reserves) میں کمی واقع ہوتی ہے جس کو پورا کرنے کے لئے وہ مرکزی بینک سے قرض حاصل کرتے ہیں اور جس سے بھی معیشت میں کرنسی کا حجم بڑھ جاتا ہے جو افراطِ زر کا باعث بنتا ہے۔ المختصر، اس سرمایہ دارانہ نظام کی معیشت میں مسائل کا ہر حل نئی تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں برآمدات اور درآمدات میں توازن پیدا کرنے کے لیے روپے کی قدر کم کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر پیدا ہوتا ہے۔ حالانکہ ہمارا صنعتی شعبہ کمزور ہے اور ہماری درآمدات، برآمدات کے مقابلے میں ہمیشہ زائد ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کی سرمایہ دارانہ حکومت آئی ایم ایف کے حکم پر روپے کی قدر کو کم کر دیتی ہے۔ روپے کی قدر میں اِس کمی کا مقصد پاکستان کے تجارتی توازن کو بہتر کرنا بتایا جاتا ہے۔ ریاست تجارتی توازن حاصل کرنے کے لیے درآمدات کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جبکہ اندرون ملک تیار ہونے والی اشیا کو زیادہ سے زیادہ برآمد کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ لیکن روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کی اشیا کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں زراعت، ٹیکسٹائل اور معیشت کے دوسرے شعبوں میں ایک افراتفری مچ جاتی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی بلند شرح سود کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔
لہٰذا مہنگے قرضے اور پیداواری لاگت میں اضافہ بہت سی کمپنیوں اور صنعتوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں۔ جب پاکستانی مصنوعات مہنگی ہونے کی وجہ سے کوئی خریدار نہیں ڈھونڈ پاتیں تو پاکستان کی اہم برآمدی اشیا کی برآمد میں کمی آ جاتی ہے اور پاکستان کی ادائیگیوں کا توازن خراب ہو جاتا ہے۔
یہ معاملہ اس وقت مزید گھمبیر ہو جاتا ہے جب درآمدات کا سلسلہ ویسے ہی جاری وساری رہتا ہے۔ دنیا کی چوتھی بڑی زرعی معیشت ہونے کے باوجود پاکستان اشیائے خورونوش درآمد کرنے والا ملک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اشیائے خورونوش کی درآمد پر روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ نتیجتاً اندرون ملک کھانے پینے کی اشیا مزید مہنگی ہو جاتی ہیں۔ حالیہ کئی سال میں ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت اور پاکستانی روپے کا اس سے منسلک ہونے کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔
نوٹ چھاپنے کی ناکام پالیسی کو چھپانے اور ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے حکومتِ پاکستان کا تارکین وطن کی بھیجی ہوئی رقوم اور اشیائے خورونوش جیسے چاول، گندم کی برآمدات پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ان اشیا کی اندرونِ ملک قلت ہو جاتی ہے اور ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اتنی محنت سے کمایا ہوا زرمبادلہ، ملکی معیشت میں نہیں ڈالا جاتا بلکہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے واپس بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے جس سے غیر ملکی معیشتیں مضبوط ہوتی ہیں۔ حکومتِ پاکستان ادائیگیوں میں آنے والے فرق کو پورا کرنے کے لئے بین الاقوامی اداروں سے مزید قرضہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہے جس سے اس کے مسائل میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہ نئے قرضے سود پر حاصل کیے جاتے ہیں اور دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان بھی اصل قرضے کی رقم بھی کئی بار ادا کر دینے کے باوجود قرضے سے نجات حاصل نہیں کر پاتا کیونکہ یہ قرضے ایسی شرائط کے ساتھ آتے ہیں جن سے معیشت مزید کمزور ہوتی ہے، شرح سود بڑھتی ہے، کرنسی کی قیمت کم ہوتی ہے اور زرعی اور صنعتی شعبے کی پیداوار زوال پذیر ہو جاتی ہے۔
کاغذی فیٹ کرنسی کی وجہ سے پیدا ہونے والے افراط زر سے منسلک ان تمام مسائل کے تدارک کے لیے سونے اور چاندی کے پیمانے کی جانب دوبارہ لوٹنا ضروری ہے۔ اسلام نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ریاست کی کرنسی کی بنیاد قیمتی دھات کی دولت کو ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں افراط زر کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے سونے کے دینار کو جن کا وزن 4.25 گرام اور چاندی کے درہم کو جن کا وزن 2.975 گرام ہو، ریاست کی کرنسی کے طور پر استعمال کیا۔ اس وجہ سے ایک ہزار سال تک ریاستِ خلافت میں قیمتوں کو استحکام حاصل رہا۔ آج بھی ایک اسلامی ریاست کو اسلام کے مقرر کردہ کرنسی کے اس معیار کو اپنانا ہوگا۔ بین الاقوامی تجارت میں سونے اور چاندی کا کرنسی کے طور پر دوبارہ اجرا عالمی تجارت میں امریکہ کی بالادستی کے خاتمے کا باعث بنے گا کیونکہ اس وقت امریکہ دنیا کو بین الاقوامی تجارت کے لیے ڈالر کے استعمال پر مجبور کر دیتا ہے۔
کرنسی کے اس معیار کو اپنانا مسلمانوں کے لیے عملی طور پر ممکن بھی ہے۔ مضبوط مسلم ممالک سونے اور چاندی کے وسائل سے بھرپور ہیں جیسے پاکستان میں سینڈک اور ریکوڈیک کا وسیع علاقہ۔ امت کے پاس ایسے وسائل ہیں جن کی دوسرے ممالک کو شدید ضرورت ہوتی ہے جیسے تیل، گیس، کوئلہ، معدنیات اور زرعی اجناس جن کے بدلے سونا اور چاندی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح مسلم علاقوں میں موجود بینکوں میں غیر ملکی اثاثے جیسے ڈالر، یورو اور پائونڈ سٹرلنگ موجود ہیں، انہیں بھی تبادلے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مسلم علاقے بنیادی ضروریات کے حوالے سے خود کفیل ہیں لہٰذا حقیقی معیشت مستحکم ہو گی اور غیر حقیقی معیشت( سٹاک مارکیٹ،derivatives وغیرہ) کے خاتمے کے بعد معیشت سٹے بازی کے اثرات سے بھی محفوظ ہو جائے گی۔ یہ سب افراط زر کو جڑ سے ختم کرنے پر نتیجہ انگیز ہوگا۔