تفصیلات کے مطابق رینجرز نے عمران خان کو گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کر دیا۔ عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں احاطہ عدالت سے گرفتار کیا ہے۔وہ آج عسکری اداروں کے خلاف بیان بازی پر ضمانت کیس میں پیشی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے۔ گرفتاری کے دوران وکلا اور پولیس میں ہاتھا پائی ہوئی۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کر لیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو نیب راولپنڈی منتقل کر دیا گیا ہے۔
نیب کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد نے یکم مئی کو عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے۔
نیب نے عمران خان کونیشنل اکاؤنٹیبیلٹی آرڈیننس 1999 کے سکیشن 9 اے کے تحت گرفتار کی۔عمران خان کو نیب نے 34 اے ، 18 ای ، 24 اے کے تحت کارروائی عمل میں لاتے ہوئے گرفتار کیا۔
وکیل علی بخاری نے بتایا کہ عمران خان بائیو میٹرک کرانے دائری برانچ کے باہر گئے تھے جہاں بائیو میٹرک روم کے شیشے توڑ کر انہیں گرفتار کیا گیا۔
وکیل بیرسٹر گوہر نے دعویٰ کیا کہ رینجرز نے عمران خان پر تشدد کیا۔ ان کے سر اور زخمی ٹانگ پر تشدد کیا گیا۔ان کی وہیل چیئر وہیں پھینک دی گئی۔
پی ٹی آئی رہنما مراد سعید نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کو تشدد کر کے گرفتار کیا گیا ہے۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1655872097737125888
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری کے موقع پر عدالتی احاطے میں ہونے والی توڑ پھوڑ کا نوٹس لے لیا۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی احاطہٗ عدالت سے گرفتاری پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اور سیکریٹری داخلہ کو فوراً طلب کرلیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ عمران خان کی کس کیس میں گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے جو عدالت کے احاطے میں ہوا اس سے لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ میں چیمبر میں انتظار کر رہا ہوں۔ یہ کام کس نے کیا ہے؟ مجھے پتا چلا ہے کہ شیشے بھی توڑے گئے ہیں جس نے بھی کیا غلط کیا ہے۔ ضرورت پڑی تو وزیر اعظم اور وزراء کے خلاف کارروائی کروں گا۔
عدالت نے کہا کہ آپ نے یہ غلط کام ہے جس نے بھی کیا ہے اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آدھا گھنٹہ دے دیں۔
عمران خان کے وکیل نعیم نے کہا کہ پولیس، وکلا اور اسٹاف کو رینجرز نے مارا ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ عمران خان کو کس مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے؟ فوراً بتائیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد، سیکریٹری داخلہ کو پندرہ منٹ میں طلب کرلیا۔ انہوں ںے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بھی پندرہ منٹ میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔
دوسری جانب آئی جی اسلام آباد کا کہنا ہے کہ دفعہ 144نافذ ہے خلاف ورزی پرکارروائی ہوگی۔ حالات معمول کے مطابق ہیں۔
القادر ٹرسٹ کیس
نیب کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک اور بزنس ٹائیکون ملک ریاض کو ضبط کی گئی رقم پر ریلیف دیتے ہوئے بدلے میں بحریہ ٹاؤن سے اراضی حاصل کی گئی۔
پاکستان کے نامور بزنس ٹائیکون ملک ریاض نے 190 ملین پاونڈ کی جائیداد برطانیہ میں خرید رکھی ہے۔ جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ملک ریاض سے اس رقم کی ‘منی ٹریل’ مانگی جو وہ فراہم نہیں کر سکے ۔ اس کے بعد نیشنل کرائم ایجنسی نے عدالت سے رجوع کیا ۔ بعد ازاں اس معاملے کی عدالت کے باہر ہی سیٹلمنٹ ہو گئی تھی جس کے مطابق کرائم ایجنسی نے رقم براہ راست پاکستان حکومت کو منتقل کر دی گئی۔
اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے۔ کیس کے مرکزی ملزم سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر نے فنڈز کی بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹ میں منتقلی کی منظوری کابینہ سے کرائی تھی۔ شہزاد اکبر کے ملک ریاض کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور انہوں نے ملک ریاض سے’کک بیکس’ اور کمشن کے بدلے کابینہ سےاس کی غلط طریقے سے منظوری لی۔ انہوں نے منظوری کے لئے موقف اختیار کیا کہ 190 ملین پاونڈ جو کہ 50 ارب روپے بنتے ہیں۔ ملک ریاض کو دے دیتے ہیں اور جو ملک ریاض نے کراچی بحریہ کے کیس کے نتیجے میں 460 ارب روپے دینے تھے اس مد میں ان پیسوں کی ادائیگی کر سکیں۔ لیکن وہ رقم پاکستانی عوام کی تھی جو کہ ملک ریاض کو دے دی گئی اور عمران خان بھی اس کرپشن کا حصہ بن گئے اور وہ رقم قومی خزانے میں جمع کروائے جانے کے بجائے سُپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے تحت اقساط میں 460 بلین روپے کی ادائیگی کررہے ہیں۔
نیب کا مؤقف ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کی ملکیت 190 ملین پاؤنڈ ملک ریاض کو ہی واپس مل گئے۔ برطانیہ میں ریکور ہونے والے 50ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ساتھ ایڈجسمنٹ کی جس کے بدلے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی نے اربوں روپے مالیت کی 458 کنال اراضی القادر ٹرسٹ اور بنی گالہ میں 240 کنال اراضی بشریٰ بی بی اور عمران خان کو دے دی گئی۔
اس حوالے سے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی دستاویزات بھی منظر عام پر لائی گئیں۔
دستاویزات کے مطابق 24 مارچ 2021 کو بحریہ ٹاؤن نے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم سوہاوا میں 458 کنال کی اراضی عطیہ کی تھی۔ اس اراضی کا معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور سابق خاتون اول بشرٰی بی بی کے درمیان ہوا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشرٰی بی بی کے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط کیے گئے ہیں۔
گزشتہ سال ایک میڈیا رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ لاکھوں روپے ٹرسٹ والی یونیورسٹی میں صرف 37 طلباء زیر تعلیم ہیں۔یونیورسٹی کو ٹرسٹ کے ذریعے چلایا جاتا ہے جس کے نگراں عمران خان، بشریٰ بی بی، زلفی بخاری اور بابر اعوان تھے۔ تاہم زلفی بخاری اور بابر اعوان کو ہٹا کر ان کی جگہ ڈاکٹر عارف نذیر بٹ اور فرح گوگی کو ٹرسٹی بنادیا گیا تھا۔
گزشتہ سال قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے بتایا تھا کہ القادر یونیورسٹی کے ٹرسٹی عمران خان اور ان کے اہلخانہ تھے۔ یونیورسٹی کےلیے 50 کروڑ کی ڈونیشن دی گئی۔ 450 کنال اراضی عطا کی گئی۔نجی ہاؤسنگ سوسائٹی نے 200 کنال زمین فرح گوگی کو دی،ان تمام ٹرانزیکشن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ یہ ایک فراڈ تھا جو پلاٹ کیا گیا۔ یونیورسٹی کا زمین پر تاحال کوئی وجود نہیں۔