'امریکا کی کال آنے سے قبل عمران خان کو رہا کرنا چاہیے'

مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ بشمول عمران خان سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ کوئی ٹیلی فون کال آئے۔ 5 نومبر کو امریکا میں الیکشن ہے۔ اگر ٹرمپ جیت جائے اور پھر وہاں سے کال آئے۔ تو اس سے پہلے آپ فیصلہ کریں۔ اس میں مسئلہ کسی شخص یا جماعت کا نہیں ہے، ایشو پاکستان کا ہے۔ اپنے لوگوں سے بات کرنے میں کیا قباحت ہے۔ خاص طور پر جس کا مینڈیٹ ہے۔

11:41 AM, 9 May, 2024

نیا دور

عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے۔ اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں انتخابات جیت کر کہیں کہ انہیں رہا کردیں۔ اب یہ مذاق بن گیا ہے کہ فارم 45 اور 47 کیا ہیں۔ ماضی کے نگران وزیراعظم بھی حکمران جماعت کو طعنہ دے رہے ہیں کہ  چپ ہوجاؤ ورنہ میں تماری اصلیت بتا دوں گا کہ تم فارم 47 کی پیداوار ہو۔ یعنی کہ آپ کا جعلی مینڈیٹ ہے۔ اور آپ کو پتا ہے کہ آپ کس راستے سے آئے ہیں تو آپ یاد رکھیں کہ جس راستے سے آپ آئے ہیں۔ اسی راستے سے جا بھی سکتے ہیں۔ یہ کہنا تھا مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق سینیٹر مشاہد حسین سید کا۔

غیر ملکی نیوز ویب سائٹ ’اردو نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد سب سرکاری سسٹم کا حصہ بن گئے ہیں۔ اور اس کی بنیاد فارم 47 ہے، جبکہ دوسری طرف عوامی قوت ہے، جس کی بنیاد فارم 45 ہے، اور وہ ایک قیدی 804 کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہماری جماعت کو پنجاب میں اتنا بڑا دھچکا لگا ہے۔ 30 سال کی سیاست 8 فروری کو ملیا میٹ ہو گئی۔ اگر آپ اپنے گڑھ میں اپنے گھر میں ہار جائیں اور نامعلوم افراد سے ہار جائیں۔ گمنام لوگوں سے ہار جائیں تو کچھ سبق سیکھنا چاہیے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے۔

مشاہد حسین سید کا کہنا تھا اگر آپ لوگوں کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کریں گے۔ آئین کی پاسداری نہیں کریں گے اور ماضی غلطیاں دہرائیں گے تو معاملہ گڑ بڑ ہوگا۔ میں نے تو کہا ہے کہ دست شفا کی ضرورت ہے۔ دست شفا میں تمام سیاست دان، سیاسی جماعتیں سب شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ بھارت سے تجارت کرنے کو تیار ہیں۔نریندر مودی سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ را کے بندوں نے آ کر چار سالوں میں 20 دفعہ ہمارے بندے مارے ہیں، دہشت گردی کی ہے۔ دوسری طرف ہمارے جنرل کابل میں جا کر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کرتے ہیں۔ تو ہم دہشت گردوں سے بھی مذاکرات کرتے ہیں۔ تو اپنے لوگوں سے بات کرنے میں کیا قباحت ہے۔ خاص طور پر جس کا مینڈیٹ ہے۔

مشاہد حسین سید  کا کہنا تھا کہ بشمول عمران خان سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ کوئی ٹیلی فون کال آئے۔ 5 نومبر کو امریکا میں الیکشن ہے۔ اگر ٹرمپ جیت جائے اور پھر وہاں سے کال آئے۔ تو اس سے پہلے آپ فیصلہ کریں۔ اس میں مسئلہ کسی شخص یا جماعت کا نہیں ہے، ایشو پاکستان کا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ان سے سوال پوچھا گیا کہ ا آپ مسلم لیگ ن چھوڑ تو نہیں رہے؟ جس پر انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا کہ اس وقت سیاسی جماعتوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان کی بقا، ملک میں جمہوریت اور جمہوری استحکام کا مسئلہ ہے۔ سب سیاسی جماعتیں فارم 47 کی چھتری تلے آگئی ہیں۔ اور باقی دوسری طرف ہیں۔ ہم نے پل کا کردار ادا کرنا ہے۔ ہم نے ہیلنگ ٹچ دینا ہے۔

ان سے سوال پوچھا گیا کہ آپ میاں (نواز شریف) کو کوئی مشورہ دیں گے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں اپنی رائے دے چکا ہوں۔ جب سب کہہ رہے تھے کہ چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے۔ اس وقت بھی مشورہ دیا تھا کہ اس کا چانس نہیں ہے۔اگر سسٹم میں آنا ہے صدر بن سکتے ہیں۔ وزیر اعظم بننے کا چانس نہیں ہے۔ لوگ مجھ سے ناراض بھی ہوئے تھے۔ وہی بات صحیح ثابت ہوئی۔

مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ الیکشن سے پہلے بلا نہ دینے کا فیصلہ غلط ہوا تھا۔ اب کیا فائدہ ہوا؟  سپریم کورٹ نے بھی وہ فیصلے معطل کردیے۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ مذاق بن گیا ہے کہ فارم 45 اور 47 کیا ہیں۔ ماضی کے نگران وزیراعظم بھی حکمران جماعت کو طعنہ دے رہے ہیں کہ  چپ ہوجاؤ ورنہ میں تماری اصلیت بتا دوں گا کہ تم فارم 47 کی پیداوار ہو۔ یعنی کہ آپ کا جعلی مینڈیٹ ہے۔ اگر ہمارے اپنے لوگ اپنی اصلیت جانتے ہیں تو کیا باہر کے لوگ نہیں جانیں گے۔ اگر آپ کی عزت نہیں ہے اور آپ کو پتا ہے کہ آپ کس راستے سے آئے ہیں تو آپ یاد رکھیں کہ جس راستے سے آپ آئے ہیں۔ اسی راستے سے جا بھی سکتے ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم میں کہا گیا کہ ہمارا ریونیو سسٹم تباہ ہوچکا ہے۔ آپ اب بھی کپڑے اتار رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ تباہی ہوگئی ہے۔ کرپشن ہورہی ہے۔یہ بات تو آپ کرسکتے ہیں۔ میں کرسکتا ہوں۔ ہم حکومت میں نہیں ہیں۔ ہم اپنا مشاہدہ دے سکتے ہیں لیکن وزیراعظم ہی رونا دھونا شروع کردے اور کہے کہ ہم مارے گئے، لُٹ گئے تو وہ کہیں گے کہ آپ اس کرسی پر بیٹھے کیا کررہے ہیں۔

مزیدخبریں