تاہم، ہماری یہ خواہش ہے کہ اس دریا دلی سے بھارت میں بسنے والے سکھوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بسنے والے مذہبی اور سیاسی اقلیتی گروہوں کو بھی مستفید ہونے کا موقع ملے۔ ابھی کل ہی وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی صاحب نے فرمایا کہ وہ اور وزیر اعظم عمران خان دونوں ’قادیانیوں‘ پر ’لعنت‘ بھیجتے ہیں۔ کتنی دور ہے قادیان، کرتارپور سے؟ دوسری طرف مولانا فضل الرحمان ہیں۔ وہ سارا دن کنٹینر پر کھڑے حکومت کو ’قادیانی‘ سازش قرار دیے چلے جاتے ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں تو سیاسی فائدہ اٹھا لیں گی لیکن رگڑے بیچارے احمدی جائیں گے، جن کا ویسے ہی کوئی پرسانِ حال نہیں۔
ہندو بھی ہیں۔ پاکستان بننے کے وقت ان کے ملک میں 428 مندر تھے۔ ان میں سے اس وقت صرف 20 ایسے ہیں جو موجود بھی ہیں اور ان میں پوجا بھی ہوتی ہے۔ باقی 408 مندروں پر یا تو قبضے ہو چکے ہیں، یا پھر ڈھائے جا چکے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں کہ ان مندروں سے قبضے ختم کیے جائیں، لیکن کسی مائی کے لعل میں جرأت نہیں کہ ان مندروں کو واگزار کروا کے ان میں عبادت کرنے والوں کے حوالے کر سکے۔ اور تو اور، جو مندر موجود ہیں، ان پر بھی حملے کیے جاتے ہیں۔ لاکھوں ہندو بھارت کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ جو رہ گئے ہیں، ان پر کبھی توہینِ مذہب کا الزام لگتا ہے، کبھی ان کی لڑکیوں کو اٹھا کر لے جایا جاتا ہے۔
پشتون بھی ہیں۔ ان کے قبائلی علاقوں میں برسوں جنگ رہی ہے۔ دہشتگردی کا نشانہ بھی بنے ہیں۔ یہاں کے سردار، خان، ملک ان دہشتگردوں کی نذر ہوئے تھے۔ یہاں سے اٹھنے والی ایک تحریک ہے پشتون تحفظ تحریک۔ ان کے دو ایم این اے ایک الزام میں اٹھا لیے گئے اور پھر چار ماہ تک زیرِ حراست رہے۔ اب ان کو ضمانت مل گئی ہے لیکن مقدمہ برقرار ہے۔ یہ کیا مقدمہ ہے، اس پر بات کرنا کارِ بیکار سے زیادہ کچھ نہیں۔ بات اس سے کہیں بڑی ہے۔ یہ پاکستانی ہیں۔ وہ اچکزئی صاحب بھی اس روز کسی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہم اس ملک کے غدار نہیں، قیامت تک پاکستان زندہ باد کہیں گے۔
ان پشتونوں، ان بلوچوں، ان ہندوؤں، ان مسیحیوں، ان مہاجروں، ان احمدیوں سمیت اس ملک میں بسنے والے ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنی سیاسی فکر کا پرچار کرنے کی مکمل اجازت ہونی چاہیے۔ جیسے آپ نے کرتارپور راہداری بنائی ہے، ایسے ہی ایک راہداری ان بچھڑے ہوئے بھائیوں کے لئے بھی بنا دیجئے۔