رضا رومی: آج ایک مرتبہ پھر میرے ساتھ ڈاکٹر فیصل دیوجی ہیں۔ ڈاکٹر دیوجی، جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا اور آپ انہیں اس پلیٹ فارم پر ماضی میں دیکھ چکے ہیں، یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں تاریخ کے پروفیسر ہیں اور دنیا بھر میں مانے ہوئے محقق ہیں، خصوصاً پاک و ہند پر۔ اور آج میں ڈاکٹر فیصل دیوجی سے اقبال پر بات کرنا چاہوں گا، یا علامہ اقبال، جیسا کہ ان کو پاکستان میں کہا جاتا ہے۔
ان سے اقبال کی سیاسی اور سیکولر سوچ پر بھی بات کریں گے۔
ڈاکٹر دیوجی، سب سے پہلے تو خوش آمدید۔ آپ کے حالیہ مقالے نے مجھے سوچ میں مبتلا کر دیا جو کہ آپ نے کچھ دنوں پہلے مجھ سے شیئر کیا تھا جس میں آپ نے سیکولر اسلام پر بات کی ہے۔ یہ ایک خاصہ متنازع موضوع ہے، خصوصاً پاکستان میں جہاں لفظ ’سیکولر‘ ایک گالی سمجھا جاتا ہے، یا قومی ریاست کے لئے ایک خطرہ مانا جاتا ہے۔
آپ بتائیے کہ آپ کیسے اس نتیجے پر پہنچے کہ اقبال ایک سیکولر مفکر ہیں اور آپ اقبال کی سیاسی فکر کو اپنی تحقیق کی روشنی میں کس طرح دیکھتے ہیں؟
فیصل دیوجی: ایک لمحے کے لئے یہ ایک طرف رکھیے کہ وہ سیکولر مفکر تھے یا نہیں لیکن اپنے دور اور ہمارے دور کی طرح ان کو بھی سیکولر ازم سے بطور ایک نظریے کے جھوجنا پڑا۔ ان کے مشہور و معروف لیکچرز کا مجموعہ جو کہ Reconstruction of Religious Thought in Islam کے نام سے شائع ہوا، اس کے بالکل آغاز میں دیکھیں تو اقبال کہہ رہے ہیں کہ فلسفہ ہمیشہ آزاد ہونا چاہیے۔ یہ انسانی آزادی کی سیاست ہی کی طرح ہے اور اس آزادی کے ساتھ کوئی اگر مگر نہیں ہونی چاہیے۔
وہ مسئلہ جس کا اقبال کو سامنا ہے وہ یہ ہے کہ پھر اس آزادی کا اتنی ہی اہم معاشرتی استحکام کی خواہش کے ساتھ ملاپ کیسے ہو جس کی بنیاد ہی ادارہ جاتی روایت پسندی ہے، جس کے مطابق بہت سی چیزوں پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، مختلف قسم کی بااختیار قوتوں کا ہونا ضروری ہے، اور یہ کہ معاشرے میں عوامی سطح پر مقبول مذہبی خیالات ہمیشہ آزاد خیالی کی سیاست اور فلسفے کے تابع نہیں ہو سکتے؟ تو اقبال کے خیال میں ان دو چیزوں کا قریب لایا جانا ضروری ہے اور ان کے یہ مضامین انہی دو چیزوں کے ملاپ سے متعلق ہیں۔
اقبال دراصل ایک ایسی مختلف راہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے ذریعے وہ آزادی اور اختیار یا آزادی اور مروجہ خیالات کے درمیان جو بحث ہے، اس میں سے ایک درمیانی رستہ نکال سکیں اور یہ درمیانی رستہ نکالنے کا عمل ہمیشہ ہی مشکل ہوتا ہے۔ سیاست کی فطرت ہی ایسی ہے، معاشرے کا خمیر ہی یوں گندھا ہے۔ لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں کوئی درمیانی رستہ ہے جو کہ اس سے مختلف ہے جو مغربی یورپ کے مفکرین سمجھتے آئے ہیں۔ لہٰذا ان کے سامنے سوال سیکولر ازم کی مخالفت یا حمایت کا نہیں ہے بلکہ اقبال آزادی اور اختیار یا آزادی اور مروجہ خیالات کے درمیان رشتے کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ دونوں ہی چیزیں کسی بھی معاشرے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔
رضا رومی: درست۔ آپ نے ان کے مضامین کی بات کی اور مجھے ہمیشہ یہ مضامین کئی حوالوں سے کافی انقلابی لگے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں پاکستان میں پلا بڑھا ہوں اور وہاں جو مروجہ اصولِ قانون ہے، اسی کو حتمی سمجھا جاتا ہے آپ اس سے آگے کا نہیں سوچ سکتے، اس پر سوالات نہیں اٹھا سکتے اور اقبال، غالباً اپنے چھٹے مضمون میں کہتے ہیں کہ ہمیں ان فقہوں سے آگے کا سوچنا چاہیے اور ایک نئی راہ تلاش کرنی چاہیے۔ تو میں اپنے پہلے سوال کی طرف واپس جاؤں گا کہ پھر آپ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں اقبال کا کیا مقام دیکھتے ہیں، خصوصاً بیسویں صدی کے اوائل میں جب سیاسی ہلچل عروج پر تھی اور دنیا کو نئے سیاسی مباحث درپیش تھے، اقبال کا اس پر کیا اثر ہے؟ کیونکہ پاکستان میں بچوں کو بھی یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اقبال ایک اسلامی ریاست پاکستانی مسلمانوں کی ایک مذہبی شناخت ہونے کے داعی تھے۔ تو آپ جنوبی ایشیا کے سیاق و سباق میں اقبال کو کہاں دیکھتے ہیں؟
فیصل دیوجی: کچھ حوالوں سے اقبال اکیلے نہیں ہیں اور میں، یہ میرا پسندیدہ حربہ ہے، کہ ان کا تقابل گاندھی سے کرتا ہوں۔ یہ دونوں سیاسی طور پر ایک دوسرے سے بہت سے اختلافات رکھتے تھے لیکن بطور دانشور کے یہ دونوں خاصے مماثل تھے۔ مثلاً گاندھی بھی ایک انتہائی مذہبی آدمی تھے اور مانتے تھے کہ مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا لیکن اس بات سے ان کا، اور بلاشبہ اقبال کا بھی، جو مطلب تھا، وہ اس سے بہت مختلف ہے جو اقبال کے خود ساختہ پیروکاروں کا ہے۔
سیاست اور مذہب کے ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کے حوالے سے اقبال اور گاندھی دونوں کا ماننا تھا کہ سیاسی زندگی کو مذہبی زندگی سے علیحدہ کر کے دیکھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ سیاست مکمل طور پر مادیت پرست اور متشدد ہو جائے کیونکہ مذہب کے بغیر یہ نظریات سے عاری ہوگی۔ کیونکہ نظریے کو آپ فرد کی انفرادی زندگی تک محدود کرنے کی بات کر رہے ہیں لہٰذا وہ بنیادی طور پر مذہب نہیں، مذہب کو نظریے کے اظہار کے ایک طریقے کے طور پر دیکھتے تھے، وہ اسے انسان کی معاشرتی زندگی میں ایک کامل تصور کے طور پر دیکھتے تھے۔ لہٰذا مغربی معاشروں نے جس طرح مذہب اور سیاست کو مکمل طور پر علیحدہ کیا، اسے اقبال اور گاندھی دونوں ہی انتہائی نقصان دہ سمجھتے تھے، کیونکہ اس نے سیاست یا معاشرتی زندگی کو مکمل طور پر مادیت پرست بنا دیا۔
یہ بھی دیکھیے:
اور اس کے نتیجے میں ان کے نزدیک تشدد جنم لیتا ہے تو یہ جو کامل تصورات ہیں، جو کہ مذہب فراہم کرتا ہے، یہ معاشرے میں کیسے رائج ہوں گے جو کہ ظاہر ہے کہ اُس دوسرے نظریے میں فرد کی معاشرتی زندگی سے بالکل غائب ہوگا۔ تو یہ وہ اصل مسئلہ ہے جو ان دونوں کو درپیش تھا لیکن یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ اقبال مغربی سیکولر خیالات پر اس لئے تنقید نہیں کر رہا کہ وہ مذہبی نہیں ہیں بلکہ وہ ان پر اس لئے تنقید کر رہا ہے کہ یہ بیحد مذہبی ہیں۔ یا جو اس کے نزدیک مکمل طور پر روحانی ہو چکے ہیں۔
مثلاً وہ کہتا ہے کہ فرد اور معاشرے کی ایک ایسی تقسیم کہ جس میں ہماری مادیت پرستی اور تشدد معاشرتی زندگی کا حصہ مد نظر رہے اور مذہب اور یہ بلند اخلاقیات ذاتی زندگی تک محدود ہیں، ایک تو یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ زندگی یوں تقسیم نہیں ہوتی اور دوسرا اس کے ساتھ اقبال کے خیال میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ تقسیم دراصل ایک مذہبی تقسیم ہے کیونکہ اس کے نزدیک یہ مسیحیت میں موجود راہبانہ تصور کی بنیاد پر استوار ہے کہ جس کے مطابق روحانیت اور مادّیت میں پہلے ہی تقسیم ہے۔
راہبانہ مسیحیت میں مادی زندگی اور مذہبی زندگی کو الگ الگ ہی دیکھا جاتا تھا۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں، مگر Reformation کے دوران اقبال کے مطابق ان کو ایک دوسرے سے جدا دیکھا جانے لگا۔ پھر اس کا ماننا ہے کہ یہ مادیت پر مبنی معاشرتی زندگی پر سیاست بالخصوص وطن پرستی کی سیاست کی بنیاد اٹھائی گئی جو کہ معاشرے کو اس بنیاد پر تقسیم کرتی ہے کہ فرد کی حیثیت اس کی جائیداد کی ملکیت کی بنیاد پر طے کی جاتی ہے۔ قومی ریاست کا تصور ہی قوم کی مشترکہ ملکیت پر استوار ہے اور یہ نجی یا ذاتی ملکیت کے تحفظ کی ضمانت بھی دیتی ہے۔
جب کہ روحانیت ایسے میں صرف ایک ذہنی سکون کا ذریعہ بن جاتا ہے جو کہ آپ کو تنہائی میں میسر آتا ہے۔ اقبال اس کو ایک روحانی یا مذہبی تقسیم کے طور پر دیکھتا ہے۔ لہٰذا اسے مغربی سیکولر ازم سے مسئلہ یہ ہے کہ یہ مذہبی اور روحانی ہی ہے۔ تو جب آپ روحانیت پر ایک معاشرے کی بنیاد اٹھا رہے ہوں گے تو پھر آپ آزادی اور اختیار کے سوال کو مختلف انداز میں کیسے دیکھ سکیں گے؟ یہ وہ مسئلہ ہے جس کا سامنا اقبال بھی کرتا ہے، اور کچھ طریقوں سے گاندھی بھی۔
اور میں آپ کے اگلے سوال کی طرف بڑھنے سے پہلے ایک بات اور کہنا چاہوں گا کہ اقبال اور گاندھی دونوں کے نزدیک یہ تقسیم اس لئے نہیں ہے کہ کسی شخص کو اچانک ایک بڑا اچھا خیال آیا کہ ہمیں دنیا کو یوں ترتیب دینا چاہیے بلکہ یہ ایسا اس لئے ہے کہ نوآبادیاتی ادارے دنیا کو لامحالہ ایسا بنا دیتے ہیں۔ لہٰذا گاندھی اور اقبال دونوں کا ماننا ہے کہ نوآبادیاتی ریاست جو کہ خود کو ایک غیر جانبدار تیسرے فریق کے طور پر پیش کرتی ہے، جو کہ بھارتی معاشرے کے مختلف اور باہم متصادم مفادات کے درمیان ایک منصف تقسیم کار ہے، یہ معاشرتی رشتوں کا ایک ایسا تصور پیش کرتی ہے جو خود معاشرے کو مذہبی گروہوں کی صورت تقسیم کرتی ہے، مثلاً ہندو اور مسلم، یا سکھ، مسیحی اور دیگر جو بھی گروہ ہیں، جو کہ صرف ریاست کے ذریعے ہی ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی نوآبادیاتی طاقت کا راز ہے کہ ریاست خود کو ناگزیر بنا لے تاکہ بھارت میں اس کے بغیر مختلف گروہوں کے آپسی تعلقات ممکن ہی نہ رہیں۔ اور یہ ایک طرح سے سیکولر ازم کی ہی ایک شکل تھا جو کہ انفرادی زندگی کو معاشرتی زندگی سے علیحدہ کر کے دیکھتا تھا اور ان گروہی اور شخصی مفادات کا تحفظ ریاست کے بغیر ناممکن بنا دیا گیا جو کہ پارلیمنٹ اور مختلف اداروں کی صورت میں موجود تھیْ
ان دونوں افراد کے نزدیک یہ ایک انتہائی متشدد صورتحال تھی کیونکہ اس سے مذہب کے گروہی مفادات تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں جو کہ ان کے خیال میں نہیں ہونا چاہیے تھا اور دوسرے یہ مذاہب کا انحصار مکمل طور پر ریاست پر بنا دیتا ہے کہ جس میں یہ ایک دوسرے سے تعلق ہی صرف ریاستی سرپرستی میں رکھ سکتے ہیں اور وہ بھی متحارب انداز میں کہ ان کا آپس میں کوئی تعلق ہی نہ رہے۔
لہٰذا گاندھی نے تحریک خلافت، جو کہ ترکی میں خلافت کی حمایت میں عالمِ اسلام کا تصور ذہن میں رکھتے ہوئے چلائی گئی، کو ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھا کہ جس کے ذریعے ہندوستان کے مختلف مذاہب ایک دوسرے سے ریاست سے مبرا ہو کر تعلق پیدا کر سکیں۔ اس نے کہا کہ ہندو اور مسلمان کسی معاہدے کے تحت جڑے ہوئے نہیں۔ یہ تو ایک نوآبادیاتی نظام کرتا ہے، اس کا طریقہ واردات ہی یہ ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے دوران تعلق کسی معاہدے کے تحت نہیں کیونکہ معاہدہ کاروباری معاملات میں ہوتا ہے اور یہ عارضی ہوتا ہے کیونکہ جیسے ہی آپ کا ایک دوسرے سے مفاد ختم ہوتا ہے، تعلق بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ مذاہب ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتے ہیں، بغیر کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے، مگر یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے سے بغیر ایک مذہب میں ایمان رکھے جڑے ہوئے ہیں۔ تو گاندھی کا کہنا ہے کہ تحریک خلافت بہت ضروری ہے کیونکہ وہ مسلمان جو اس کی حمایت کر رہے ہیں، وہ یہ دکھاتے ہیں کہ وہ ایک عظیم تصور کے حصول کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں۔ شاید تمام مسلمان ایک عظیم تصور کی خاطر نہ کر رہے ہوں لیکن یہ تحریک سیاسی طور پر تو کوئی عملی منطق نہیں رکھتی تھی۔ چونکہ یہ ایک عظیم تصور کی خاطر چلائی جا رہی ہے تو جو ہندو اس کی حمایت کر رہے ہیں، وہ بھی اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ وہ ایک عظیم تصور کے موجود ہونے کے تصور سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔ یہ خلافت کو بچانے میں تو ایمان نہیں رکھتے، یہ صرف اپنے ہمسایوں کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایک ایسے تصور کے لئے جس میں ان کے ہمسائے یقین رکھتے ہیں۔ وہ ہمسائیگی، دوستی اور قربانی کے جذبے کے تحت ان کے ساتھ ہیں۔
اسی طرح مسلمان جو ہندوؤں کی دوستی چاہتے ہیں، وہ یہ قربانی دیں، اور بلاشبہ خلافت رہنماؤں نے گاندھی کو پیشکش بھی کی، کہ وہ گائے کی قربانی کو چھوڑ دیں گے کیونکہ یہ ہندوؤں کے لئے باعثِ اشتعال تھا۔ گاندھی نے ان کو جواب دیا کہ یہ کسی بھی طرح سے کوئی contract نہیں ہے۔ ہم گائے کے بدلے آپ کو خلیفہ نہیں دے رہے۔ اگر آپ ہندوؤں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے گائے کی قربانی چھوڑنا چاہتے ہیں تو آپ ایسا ضرور کریں۔ مگر گائے کی قربانی کرنا چھوڑنے کا بھی یہ مطلب نہیں کہ مسلمان بھی گائے کے مقدس ہونے میں ایمان رکھتے ہیں، لہٰذا دونوں معاملات میں ہندو خلافت میں یقین رکھے بغیر اس کی حمایت کر رہے ہیں جب کہ مسلمان گائے کو مقدس سمجھے بغیر اس کی قربانی چھوڑ رہے ہیں۔ یہ دونوں مختلف وجوہات کی بنا پر ایسا کر رہے ہیں۔ گائے اور خلیفہ کا تبادلہ اس لئے ہو رہا ہے کہ یہ بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ یہ ایک زمرے میں نہیں آتیں لیکن یہ ایک زمرے میں آ جائیں گی اگر آپ اسے نوآبادیاتی نظام کے تحت ایک غیر جانبدار فریق کی بطور ریفری کے حیثیت تسلیم کر لیں کہ وہ سب فریقین کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔
یہاں دو گروہ ہیں جو ایک دوسرے سے نظریات کی بنیاد پر تعاون کر رہے ہیں جو کہ ایک دوسرے کے مذاہب میں ایمان نہیں رکھتے اور ان کا تعلق کاروباری نوعیت کا نہیں ہے بلکہ یہ دوستی اور محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے تو یوں آپ ایک غیر جانبدار تیسرے فریق کے طور پر نوآبادیاتی ریاست کے بغیر بین المذاہب ہم آہنگی کا تصور کر سکتے ہیں جہاں یہ مذہبی گروہ صرف گروہی مفادات کے تحفظ کے لئے ایک دوسرے سے نہیں جڑے ہوئے۔
رضا رومی: صحیح کہا آپ نے، یہ ایک بہت دلچسپ نقطہ نظر ہے لیکن آپ نے ایک بہت اہم بات کہی ہے کہ کس طرح مذہبی گروہ مفادات کے گرد گھومنے لگتے ہیں اور ریاست پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔ کیا یہی کچھ 1947 کے بعد والے برصغیر میں نہیں ہوا جہاں، خصوصاً پاکستان میں، ایسے مذہبی گروہ موجود ہیں جو ریاست کی چھتر چھایا میں پروان چڑھتے ہیں، اور ایسا بڑی حد تک بھارت میں بھی ہے۔ کیا یہ اقبال اور گاندھی کا خوف ہی حقیقت میں بدلتا دکھائی نہیں دے رہا؟ کیا آپ بھی ایسا سمجھتے ہیں؟
فیصل دیوجی: ہاں یہ درست ہے، بلکہ ان کی اپنی زندگیوں میں بھی یہ دونوں ہی سمجھتے تھے کہ ہندوستان کو بچانے کے لئے، اور جب میں ہندوستان کہتا ہوں، تو میں برطانوی ہندوستان کی بات کر رہا ہوں۔ جس میں آج کے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش تینوں شامل ہیں، کہ نوآبادیاتی ریاست کا کردار بہت محدود ہو، جو عوام کی زندگیوں پر اثر انداز نہ ہو اور مفادات پراپرٹی کی بنیاد پر طے ہوں، یعنی آپ کا مفاد اس چیز میں ہے جو آپ کی اپنی ہے، خواہ یہ آپ کا اپنا جسم یا شناخت ہی کیوں نہ ہو، جس میں آپ کا ذاتی مفاد ہو سکتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان، کسی حد تک غربت کے باعث، ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں تمام معاشرتی تعلقات ایک ہی زاویے سے نہیں دیکھے جا سکتے تھے۔ اسی لئے گاندھی اور اقبال دونوں کے مطابق اس قدر قربانی کا جذبہ نظر آتا تھا جو کئی مرتبہ غیر معقول ہوتا تھا، جیسا کہ تحریکِ خلافت۔ اگر اس کو مفاداتی سیاست کی نظر سے دیکھا جائے، کیونکہ جدید ہندوستان میں سماجی تعلقات محض جنس کی ملکیت سے جانچے نہیں جا سکتے تھے لہٰذا مفاداتی گروہ اتنی آسانی سے اور اتنی مضبوطی سے قائم نہیں کیے جا سکتے تھے مگر یہ درست ہے، میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ آج کے حالات میں ایسے مذہبی گروہوں کا تصور بھی محال ہے جو کہ مفاداتی نہ ہوں۔ یہ ان کے سیاسی وجود کے لئے آج ناگزیر ہو چکا ہے۔ پھر بھی میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تمام سماجی تعلقات کو اسی نکتہ نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا، اور یہی وجہ ہے کہ ان کو اکثر قربانی کا جذبہ بھی ابھارنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھار یہ مثالیت پسند عناصر بہت متشدد اور نقصان دہ بھی ہوتے ہیں۔ جب کہ یہ مثالیت پسند پھر بھی رہتے ہیں، اس کی ایک مثال خودکش حملہ آور ہیں۔ جو کہ مثالیت پسند رہتے ہوئے اپنی جان دے دیتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھرلنا چاہیے کہ یہ تمام اعمال خواہ کتنے ہی کراہیت آمیز ہوں، ان میں کہیں نہ کہیں ایک ابھار موجود رہتا ہے جو کہ منطقی اور گروہی مفادات پر مبنی سیاست بدل نہیں سکتی جن کا مقصد محض ہر حال میں اپنی ملکیتی جنس کو بڑھانا ہوتا ہے، چاہے وہ آپ کی اپنی ذات ہو، آپ کا مذہب یا نظریہ ہو یا آپ کی کوئی حقیقی جائیداد، یہ سب چیزیں انسان اپنی ملکیت کے زاویے سے دیکھ سکتا ہے۔
اقبال اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں، ان کے نزدیک سامراجیت اور وطن پرستی کی بنیاد ہی مادّی شے کی ملکیت پر ہے بلکہ وطن پرستی شاید ملکیت کے قانون کو مزید جابرانہ بناتی ہے۔ کیونکہ قومی ریاست خود مشترکہ ملکیت کے تصور پر کھڑی ہے۔
رضا رومی: صحیح۔ اقبال کی مذہبی اور سیاسی سوچ کی طرف واپس آتے ہیں۔ فیصل، آپ نے انہی موضوعات کو ان کی شاعری میں بھی دیکھا ہے اور ان پر اکثر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ اقبال نے بالکل متضاد باتیں کر رکھی ہیں یعنی ایک دن آپ لینن کی تعریف کر رہے ہیں، اگلے روز آپ مذہبی استعارے کی طرف واپس آتے ہوئے مغرب کا رد کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ان کی شاعری میں سے اپنی پسند کے موضوعات کو اٹھایا جاتا ہے جو کہ مغرب مخالف ہے، مغربی سیکولر سوچ کے خلاف ہے اور یہی اشعار سیکولر ازم کو رد کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ تو اس حساب سے آپ اقبال کی سوچ کیا دیکھتے ہیں اور آج کے پاکستان میں اس کی کیا جگہ دیکھتے ہیں، کیونکہ آپ پاکستان پر بھی تحقیق کر چکے ہیں تو میں آپ کی اس بارے میں رائے جاننا چاہوں گا۔
فیصل دیوجی: دیکھیے، میں نہیں سمجھتا کہ ان کی باتوں میں بہت زیادہ تضاد ہے۔ ان کی سوچ میں شروع سے ہی ایک تواتر ہے گو کہ وہ اپنے بیان اور الفاظ میں تبدیلی وقت کے ساتھ ساتھ ضرور لائے ہیں لیکن آپ ان کے ڈاکٹرل مقالے میں جو بھی موضوعات دیکھتے ہیں The Development of Metaphysics in Persia جو کہ انہوں نے 1908 میں لکھا اور اس کا تقابل جاوید نامہ سے کریں جو کہ ان کے آخری وقت کی تصنیف ہے اور فارسی شاعری کی کتاب ہے، یہ مختلف موضوعات پر بات مختلف زبانوں میں کرتے ہیں۔
فارسی میں لکھتے ہوئے ان کا موضوع ہندوستان ہے، وہ تاریخِ ہندوستان پر بات کرتے ہیں، مسلم بھی اور غیر مسلم بھی، مثلاً بدھا، ہندو مت، ویدک دور، سنسکرت عبارت کے موضوعات ان کی فارسی شاعری میں اردو شاعری کے مقابلے میں کہیں زیادہ آتے ہیں، جو کہ بہت دلچسپ ہے، لہٰذا میں کہوں گا کہ وہ ایک پیچیدہ شخصیت ہیں، لیکن ان کی سوچ میں تضاد نہیں ہے۔ گو کہ مختلف زبانوں میں ان کا کام ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جہاں تک سیکولر ازم کا تعلق ہے تو ہاں، وہ یورپی سیکولر ازم کے خلاف ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے کہا، لیکن وہ جزوی طور پر اس کے خلاف اس لئے بھی ہیں کہ یہ حد سے زیادہ مذہبی ہے اور ان کو لگتا ہے کہ مذہبی اور دنیاوی کے درمیان جو فرق یہ قائم کرتا ہے، اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے۔ اور یہ مسیحیت میں تاریخی سدھار کا ایک نتیجہ تھا، لہٰذا وہ آزادی اور محکومیت کے درمیان تعلق کو ایک الگ زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ ایک راستہ یہ بھی اختیار کرتے ہیں، کہ یورپی نظریہ سیکولر ازم انفرادی اور اجتماعی میں واضح طور پر فرق کرتا ہے لیکن اگر ہم انہی سماجی تعلقات کو مکانی کی جگہ زمانی زاویے سے دیکھیں اور اقبال کی شاعری میں زمانے سے متعلق بہت بات کی گئی ہے، لہٰذا وہ تجرباتی طور پر سمجھنے کے لئے دو مثالیں دیتا ہے۔ ایک مثال شیعہ کی اور ایک سنی کی ہے، وہ اس بنیاد پر کوئی فرق نہیں کر رہا۔
شیعہ مثال یہ ہے کہ بارہویں امام کے غائب ہونے کی صورت میں آپ ایک پرفیکٹ مذہبی سماج کو جنم نہیں دے سکتے۔ ایک کامل نظام ان کی غیر موجودگی میں تصور کرنا بھی ایک گناہ ہوگا کیونکہ صحیح اسلامی ریاست ایک امام ہی معاشرے کو بنا سکتا ہے۔ لہٰذا جب تک امام واپس نہیں آ جاتے، تب تک ہمارا معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو کہ مذہبی طور پر کامل نہیں لیکن یہ ساتھ ساتھ ایک ایسا معاشرہ بھی ہے جو کہ انسانی آزادی کا منظر پیش کرتا ہے، کیونکہ یہی چیز انسان کو آزاد کرتی ہے۔ لہٰذا یہ مذہب کے ہونے اور نہ ہونے کو مکان کی جگہ زمان میں تلاش کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
سنی نظریہ وہ کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ چونکہ پیغمبرِ اسلامؐ آخری پیغمبر ہیں، مسلم اعتقاد کے مطابق، براہ راست الوہی ابلاغ، جو دنیاوی معاملات پر وحی کی حیثیت سے ہو، پیغمبرِؐ اسلام کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبرِؐ اسلام کے بعد، ایک ایسا معاشرہ تشکیل پایا جو کہ ایک طرف غیر کامل ہے کیونکہ پیغمبرؐ موجود نہیں لیکن یہ انسان کو آزادی بھی دیتا ہے اور اقبال ختمِ نبوتؐ کو اسلام کا بہترین تحفہ قرار دیتے ہیں، کیونکہ اس کے ذریعے اسلام الوہی اختیار کو لمحہ موجود میں ختم کر دیتا ہے اور یوں یہ پہلی مرتبہ بنی نوعِ انسان کو ایک تاریخی کردار عطا کرتا ہے۔
لہٰذا شیعہ اور سنی دونوں ہی مذاہب میں غیر کاملیت آزادی کی ایک شرط ہے۔ دونوں ہی معاملات میں وقت یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس معاملے میں آزادی ہے اور کس میں نہیں یا کس معاملے میں اختیار حاکم کا ہے اور کس میں آزادی۔ اور آپ نے ان کی شاعری کی بات کی تو اس میں بھی غیر کاملیت اور نامکمل ہونے کے خیال پر جابجا بات دکھائی دیتی ہے (ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بیکراں کے لئے)۔ حافظ کے ایک مشہور مصرعے سے اس کی شروعات ہوتی ہے۔ ستارے اور آسمان گھومتے ہیں لیکن کبھی ملتے نہیں، جیسے دو محبت کرنے والوں کے درمیان فراق ہو۔
اقبال کے نزدیک غیر کاملیت بیک وقت خوشی اور غم کا سامان لیے ہے لیکن یہ آزادی بھی عطا کرتی ہے کیونکہ آزادی ہوتی ہی غیر کامل ہے۔ آپ کبھی مکمل اختیار آزادی میں حاصل نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ایک طرف ختمِ نبوتؐ اور دوسری طرف بارہویں امام کے غائب ہونے سے انسان کو آزادی عطا کی گئی۔ اور ان کی شاعری میں اکثر ایسے کردار بھی آتے ہیں، مثلاً خود شیطان جو کہ اس آزادی کے نمائندے ہیں۔ Reconstruction of Religious Thought in Islam کے لیکچرز میں وہ آدمؑ کی کہانی بیان کرتے ہیں کہ جب شیطان نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، اور ایسا کرنے میں وہ بیک وقت اللہ کا حد سے زیادہ وفادار بھی ہے، کیونکہ اللہ نے اس کو اپنے سوا کسی کے آگے سجدہ کرنے سے منع کر رکھا ہے اور ساتھ میں وہ خدا کے حکم کا انکار بھی کر رہا ہے۔
تو یہ آزادی کی ایک شکل ہے، اور دوسری شکل آدمؑ کی حکم عدولی ہے، کیونکہ انہوں نے بھی خدا کا حکم نہیں مانا، ایک ممنوعہ پھل کھایا، اور جنت سے نکالے گئے۔ اقبال کے نزدیک یہ بغاوت کی نہیں، انسانی آزادی کی علامت ہے کہ حکم کا انکار ہی آزادی کی ظاہری شکل ہے۔ وہ یہ سب کچھ بیان کرنے کے لئے اسلامی استعارے کا سہارا لیتے ہیں۔ نہ صرف اس لئے کہ یہ مسلمان پڑھنے والوں کے لئے قابلِ قبول بن جائے بلکہ وہ انہیں دکھانا چاہتے تھے کہ ایسی سوچ پہلے ہی موجود ہے۔ یہ ان کی اپنی اختراع نہیں ہیں۔
رضا رومی: اسلامی روایت کے اندر بھی، درست
فیصل دیوجی: یہ نئی چیز نہیں تھی، خصوصاً تصوف اور شاعری میں یہ اختلافی خیالات بڑی حد تک رائج تھے۔ تو خدا ایک طرف تو محبوب ہے لیکن جیسا کہ اردو اور فارسی شاعری میں ہوتا ہے کہ آپ اپنے محبوب سے لڑتے جھگڑتے ہیں، اس کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں، تو یہ ایک بہت قربت کا، وفا کا اور جذباتی تعلق ہے لیکن یہ ساتھ ساتھ ایک ایسا تعلق بھی ہے جس میں غیر کاملیت، ناتابعداری اور آزادی لازم و ملزوم ہیں۔ یہ تکلیف دہ ہو سکتا ہے لیکن یہ تکلیف بھی اپنے اندر خوبصورتی لیے ہے۔ اور اقبال کی نظر میں خوبصورتی غیر کامل ہوتی ہے۔
غیر کامل ہونے سے میری مراد یہ نہیں کہ خوبصورت چیز بدصورت ہے بلکہ غیر کامل ہونے سے مراد یہ ہے کہ آپ اس سطح پر نہیں پہنچے جہاں آپ مکمل ہو جائیں، آپ ابھی سفر میں ہیں، اور یہ سفر خوبصورت ہے۔ اور انسان اسی خوبصورتی کو پا سکتا ہے۔
تو اقبال اپنی فلسفیانہ اور سیاسی تحاریر اور شاعری دونوں میں آزادی کے مختلف تصورات سے جھوجھ رہا ہے۔ زمانی طور پر، مکانی طور پر نہیں۔ شاعری اور مذہب کے استعارے میں، نجی اور اجتماعی زندگی یا سیکولر اور گروہی پیرائے میں نہیں۔ یہ تمام چیزیں ان کی تمام تحاریر میں موجود ہیں۔ آپ کو بس دیکھنے کی ضرورت ہے۔
رضا رومی: یہ بہت دلچسپ ہے، اور اس لئے بھی کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی روایت کے اندر بھی نہ صرف سوچنے کی گنجائش موجود ہے بلکہ جیسا کہ اقبال اور دوسروں نے بھی بیان کیا ہے کہ خود شناسی اور انسان کے اس غیر کامل سفر کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی گنجائش ہے تو میرا آخری سوال یہ ہے کہ آپ اس اصطلاح ’سیکولر اسلام‘ کو کیسے دیکھتے ہیں کیونکہ یہ بھی ایک دلچسپ معاملہ ہے، خصوصاً لسانی اعتبار سے۔
میں اس کے بارے میں مزید جاننا چاہوں گا کیوںکہ ہمارے دیکھنے والے اس میں یقیناً بہت دلچسپی لیں گے کیونکہ اسلام کی پوری دنیا میں ایک ایسی تصویر کشی کی گئی ہے کہ یہ منطق سے دور ہے اور یہ سیکولر ازم کے خلاف ہے، اور یہ خیالات عوام میں اس حد تک رائج ہو چکے ہیں کہ ان کا جواب دینا بھی مشکل ہے۔ تو یہی میرا یہاں پر آخری سوال ہوگا۔
فیصل دیوجی: میں اس پر بات نہرو رپورٹ سے شروع کروں گا۔ 1929 میں نہرو رپورٹ آئی جو کہ مستقبل کے بھارتی آئین کا ایک پلان ہے۔ اقبال اس پر تنقید کرتا ہے اور وہ جس زبان میں اس پر تنقید کرتا ہے، وہ بہت دلچسپ ہے کیونکہ وہ نہرو رپورٹ کی جس چیز سے اتفاق کر رہا ہے کہ وہ ایک حساب سے سیکولر ہے اور اس کے لکھنے والے اس چیز سے دور ہیں جسے وہ فرقہ واریت یا گروہی سیاست کہتے ہیں یعنی نہرو کی مذہبی وفاداری پر بات ہو رہی ہے، اس کی قومی پرستی کی نہیں لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھیں، ہم نہرو کے مذہبی رجحان کے خلاف ہیں، لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ قوم پرستی بھی اتنی ہی تنگ نظر ہوتی ہے، جتنی کہ بین الاقوامی وفاداریاں ہوتی ہیں۔ لہٰذا وہ ان سب چیزوں کو ایک دوسرے کے تسلسل کے طور پر دیکھتے ہیں، بجائے ان دونوں کو ایک دوسرے کی ضد سمجھنے کے اور اقبال اسے بالکل ٹھیک سمجھتا ہے، گروہی سیاست اور قوم پرستی ایک دوسرے کا تسلسل ہیں، ایک دوسرے کی ضد نہیں۔
میں اس کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ آزادی کے وقت تک یہ لفظ ’سیکولر ازم‘ ہندوستان میں بہت زیادہ مقبول نہیں تھا۔ بحث دراصل قومی پرستی اور مذہب کے پیرائے میں کی گئی گروہی سیاست کے درمیان تھی۔ آزادی کے بعد سیکولر ازم ایک بڑے نظریے کے طور پر سامنے آیا۔ جب ہم آج اس بحث کو فرقہ واریت بمقابلہ سیکولر ازم کے طور پر دیکھتے ہیں جب آپ قوم پرستی اور مذہبی گروہی سیاست کو دیکھتے ہیں۔ تو وہ ایک دوسرے کا تسلسل ہیں، ایک دوسرے کی ضد نہیں۔
یہاں معاملہ محض یہ تھا کہ کون کس پر مقدم ہے۔ تو ایک بات تو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی مباحث کی زبان بدل چکی ہے۔ دوسری بات میں یہ کہنا چاہوں گا، اور اقبال یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ایک سیکولر ریاست کے بننے کے بعد ہی، اور یہ یاد رہے کہ نوآبادیاتی ہندوستان سیکولر تھا، وہ یوں کہ ریاست کہتی تھی کہ وہ مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرے گی اور ان سب کے ساتھ برابری کا سلوک کرے گی۔ اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو اس وقت برطانیہ میں نہیں تھی۔ تب کیا، برطانیہ میں تو آج بھی ایک ریاستی چرچ Anglican Church ہے اور ریاست کی سربراہ، یعنی ملکہ عالیہ، اس چرچ کی بھی سربراہ ہیں۔ اور یہ مسیحیوں کے ایمان کی محافظ ہیں، ہندوستان میں ایسا نہیں تھا۔
لہٰذا برطانویوں نے ہندوستان میں سیکولر ازم کو برطانیہ سے پہلے متعارف کروایا۔ یہ ریاست اس حساب سے بھی سیکولر تھی کہ تعزیراتِ ہندوستان جو کہ لارڈ میکالی نے لکھا تھا، اس میں توہینِ مذہب کا کوئی قانون نہیں تھا جو کہ برطانوی قانون کا حصہ تھا، بلکہ ماضی قریب تک رہا ہے۔ میرے خیال میں 1990 کی دہائی تک یہ موجود تھا اور اس قانون میں توہینِ مذہب کا قانون اس لئے نہیں تھا کیونکہ یہ ایک غیر مذہبی ریاست تھی جسے آپ سیکولر ریاست بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ سیکولر ریاست ہی تھی جس کی وجہ سے مذہب کی آزادی تھی کیونکہ اس نے مذہب اور سیاست کے درمیان تعلق ختم کر دیا تھا اور اس نے ایک طرح سے مذہب کو آزاد کر دیا۔
ایسا ہی امریکہ میں اٹھارہویں صدی میں اس کی آزادی کے وقت سے ہے۔ چونکہ وہاں مذہب آزاد ہے، اسی لئے یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ایک انتہائی مذہبی معاشرہ ہے، اور برطانیہ نہیں۔ یہاں پر دوسرے ملکوں سے آئے مہاجرین مذہبی ہیں۔ جو یہاں کے رہنے والے انگریز ہیں، وہ اتنے مذہبی نہیں۔ تو ایسا مذہب جو خود کو سیکولر ازم کی ضد کے طور پر پیش کرتا ہےم وہ دراصل خود سیکولر ازم ہی کی پیداوار ہوتا ہے۔
یہ سیکولر ازم کی پیداوار یوں ہے کہ یہ سیاست سے علیحدہ ہے۔ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہتا اور گاندھی اور اقبال کے لئے یہ افسوسناک ہے لیکن وہ جس تعلق کی بات کر رہے ہیں، اس میں ایسا نہیں ہے کہ تمام سیاسی معاملات مذہبی قانون کے تابع ہوں گے۔ وہ مذہب کو محض اس حد تک ریاستی امور میں شامل کرنا چاہتے تھے کہ وہ اس کے مقدس اصول مستعار لے سکیں اور ان کے گرد ایک معاشرہ خود بخود تشکیل پائے۔ لہٰذا یہاں محض ہندو، یا چونکہ ہم پاکستان کی بات کر رہے ہیں، تو مسلمانوں کی حاکمیت کے ختم ہو جانے کا مسئلہ ہے۔
جب تک مسلمان بادشاہ، شہزادے یا شہنشاہ تھے، وہ مذہبی طبقے کو قابو میں رکھتے تھے یا کم از کم رکھنا چاہتے تھے۔ اور ان کی حکومتیں سیاسی منطق کی بنیاد پر ہی چلتی تھیں۔ وہ صرف مذہب کے تابع رہ کر نہیں چلائی جاتی تھیں، بلکہ اس کے تابع بالکل نہیں تھیں۔ شریعت اپنی جگہ تھی اور ساتھ ہی قانون بھی موجود تھا اور قانون سے یہاں ہماری مراد وہ قانون ہے جو مذہبی نہیں، شاہی ہے۔ کچھ معاملات میں شریعت سے مدد لی جاتی تھی لیکن شریعت کے تابع یہ حکومتیں نہیں تھیں۔
مثلاً مغلوں کی سیاسی تاریخ ایک منگول دیوی سے جا ملتی ہے۔ وہ مسلمان تھے لیکن وہ پھر بھی اس دیوی کا نام لیتے تھے اور چنگیز خان و دیگر حکمرانوں کے بھی، تو یہ ان کے اسلام قبول کرنے سے پہلے سے چلی آ رہی تھیں اور یہ جانتے بوجھتے کیا جاتا تھا کیونکہ وہ ریاست کو مذہبی قوانین کے تابع نہیں رکھنا چاہتے تھے۔
یہ ایک ایسی دیوی تھی جس میں ان کا ایمان نہیں تھا جیسے مسلمان گائے کو مقدس نہیں سمجھتے لیکن اس کے ذبح کرنے سے خود کو روکنے پر تیار ہیں تو یہ جو نو آبادیاتی نظامی سے پہلے کی بادشاہتیں تھیں، خواہ دوسرے معاملات میں یہ کتنی ہی اچھی یا بری رہی ہوں۔ ان کے جانے سے ہی مذہب جنوبی ایشیا میں آزاد ہوا ہے۔ آج ہندو مت اور اسلام جس حالت میں ہیں، وہ ان کے جانے سے ہیں اور یوں یہ مذاہب سیکولر ازم کی پیداوار ہیں۔ اس سیکولر ازم کی پیداوار جس کے خلاف آج ان کے لیڈران صف آرا ہیں۔ اور یہ بہت عجیب بات ہے، اگر آپ غیر مذہبی اقتدار کی تشریح چاہتے ہیں تو آپ صرف نو آبادیاتی نظام سے پہلے موجود، ہمارے سیاق و سباق میں مسلم، بادشاہتوں کو دیکھ لیجئے، صرف جنوبی ایشیا میں نہیں، پوری دنیا میں جتنی بھی نئی تحقیق ان بادشاہتوں پر سامنے آ رہی ہے، یہی بتاتی ہے۔ مثلاً سلطنتِ عثمانیہ میں خلافت کی قانونی ساکھ اسلامی قانون سے نہیں بلکہ یہ تصوف اور فلسفے سے مستعار لی جا رہی ہے اور یہ سب باتیں اس موضوع پر تازہ ترین تحقیق سے ثابت ہیں۔
تو میرے خیال میں آج مذہب جس حالت میں ہے، اس کی ذمہ داری نو آبادیاتی نظام سے پہلے کی بادشاہتوں کے ختم ہونے پر ہے۔ اور اس پرانی بادشاہت میں ہمیں وہ سیاسی زبان ملتی ہے جو کہ سیاست قبل از جدیدیت میں استعمال ہوتی تھی اور اب ہم میں موجود نہیں۔ میں یہاں ان سلطنتوں یا ان شہزادوں کی شان بیان نہیں کر رہا۔ میں کہہ رہا ہوں کہ وہ ایک ایسی سیاسی زبان تھی جو اب متروک ہے۔ ان کے محض چند حصے ہمارے وقت تک برقرار رہ پائے ہیں۔
ہم آج بھی نظام، حکومت یا سلطنت، جو کہ اب پاکستان میں جمہوریت کے دور میں اتنا زیادہ استعمال نہیں ہوتا، لیکن یہ چند حصے ہیں اور اس زمانے کی سیاسی زبان کا مکمل احاطہ نہیں کرتے۔ ہمارے پاس اس زمانے کی سیاسی زبان موجود نہیں۔ اور مذہبی زبان جو کہ اس سیاسی زبان کے متبادل کے طور پر خود کو پیش کرتی ہے۔ وہ اصل میں ایسا کر نہیں سکتی، یہ کام انجام دینا اس کے بس میں نہیں۔
یہ اس زبان کی آزاد حیثیت تھی جو اقبال یا ان جیسے مفکرین کے لئے دلچسپی کا باعث تھی کیونکہ وہ نو آبادیاتی نظام کے خلاف تھے اور وہ سیاست کو ایک آزادی کا رستہ سمجھتے تھے کیونکہ جدید دور میں سیاست ہی وہ ذریعہ ہے جس سے آپ اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکتے ہیں اور فلسفہ بھی سیاست سے جڑا ہے کیونکہ یہ بھی انسان کی آزادی اور اس کی فکر کی آزادی کو موضوعِ بحث بناتا ہےْ
یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں، سیاست اور فلسفہ۔ اور اسی لئے اقبال بار بار ان کی طرف پلٹ کر آتا ہے۔ اور اس کے نزدیک شاید شاعری بھی، خصوصاً ان کے انداز کی شاعری جب کہ مذہبی اختیار اور عوامی رجحانات اس صورت میں جڑتے ہیں۔ جب آپ رجعت پسند سوچ کے حامل ہوں اور یقیناً سیاسی اختیار بھی موجود ہے، اور یہ سب چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ لیکن اقبال کی خواہش تھی کہ یہ ایک دوسرے سے بالکل ایسے جدا نہ ہوں، جیسے یورپی سیکولر ازم نے کیا بلکہ ان سب کا تعلق برقرار رہے اور ان کے درمیان موجود فرق بھی ملحوظ رہے۔ ایک ایسا نظام جس میں ان کی بقائے باہمی ممکن ہو سکے۔ ایک ایسے انداز میں کہ یہ ایک دوسرے سے قانونی طور پر نہ جڑ جائیں۔
جواہر لعل نہرو کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے کہا کہ جیسے یورپی سیکولر ازم اپنی فطرت میں مابعد الطبیعیاتی ہے کیونکہ یہ مادّی اور روحانی کے درمیان تقسیم پر مبنی ہے۔ وہ صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب آپ تاریخ میں شیخ الاسلام کے عہدے کی مثال کو دیکھیں جو کہ وزیر کے عہدے سے الگ ہے، تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ قبل از جدیدیت مسلم بادشاہتوں میں فرائض کس طرح تقسیم کیے گئے۔ شیخ الاسلام اسلام کے لئے ذمہ دار ہے، وہ وزیر کے عہدے پر نہیں۔ وہ سلطان یا خلیفہ نہیں۔ اقبال نہرو کو کہتے ہیں کہ یہ ایک اختیارات کی تقسیم ہے۔ یہ مابعد الطبیعیاتی نہیں۔ وہ نہرو کو یہ کہہ رہے ہیں کہ قبل از جدیدیت مسلم ریاست میں یہ ایک صاف تقسیم ہے کہ کیا چیز اسلامی ہے اور کیا غیر اسلامی۔ یہ تقسیم ایسی ہے جسے آپ سیکولر کہہ سکتے ہیں۔ اور اس کے پیچھے چھپی منطق مغربی سیکولر ازم کی طرح مذہبی نہیں۔
یہ ان کا استدلال ہے، ہمیں اس کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ وہ سمجھانا کیا چاہ رہے تھے۔ وہ کچھ اور نہیں صرف آزادی کے معنی سمجھانا چاہ رہ تھے۔ سیاسی معاملات میں آزادی، سوچ کی آزادی، فلسفیانہ اور شاعرانہ آزادی۔
رضا رومی: بہت شکریہ، فیصل۔ یہ ایک مسحورکن گفتگو تھی۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے دیکھنے والوں نے اس سے بہت لطف لیا ہوگا۔ یہاں بنیادی بات سوچ کی آزادی کی ہے، اور مجھے امید ہے کہ پاکستان اور پاکستانی ریاست کے کرتا دھرتا، ایسے لوگ جو اسے سنیں گے، اقبال کے بارے میں آپ کی کہی باتوں کو یاد رکھیں گے۔ اور ان پر عمل کرتے ہوئے ان کا اطلاق کرنے کی کوشش کریں گے۔