خدارا اقبال کو ایک شاعر رہنے دیں!

خدارا اقبال کو ایک شاعر رہنے دیں!
"اقبال ایک آزاد اور روشن خیال حسن پرست انسان تھے ان کو من چاہی مسند پر بیٹھا کر اپنا مفاد مت حاصل کریں"

پاکستان دنیا کو وہ واحد ملک ہے جہاں ہر اندرونی یا بیرونی شخصیات کو ذاتی مفاد کی خاطر ہیرو بنایا جاتا ہے اور ذاتی فائدے کے لئے انہیں غدار یا عیب زدہ شخصیت کا روپ دے دیا جاتا ہے۔ اقبال یوں تو برصغیر کا ایک بہترین اور بڑا نام ہیں مگر ان کی رحلت کے بعد ان کو جس تصور کے ساتھ عوام میں پیش کیا گیا ہے وہ اقبال کے فن کے ساتھ زیادتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ خود سوچئیے کہ ایک شخص دن کے 24 گھنٹوں میں سے اگر 18 گھنٹے سینما گھر میں گزارے اور 1 گھنٹا مسجد میں واعظ دے باقی 5 گھنٹے مدہوشی کے عالم میں نیند پوری کرے اور عوام الناس اس کو صرف اس کے ایک گھنٹے کے واعظ کی وجہ سے معاشرے کا پیر و مرشد اور اسلامی شخصیت بنا کر پیش کریں تو آپ کو کیسا لگے گا؟ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی عقل مند انسان اس معاشرے کے اس رویے سے کبھی بھی متفق نا ہو گا اور ایسی عوام کو نارمل نہیں سمجھے گا۔

ہمارے ہاں شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ کے نام سے پہچانے جانے والے شاعر جن کا مزار اقدس لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کے درمیان واقع ہے، تاریخی حقیقت تو یہ بتاتی ہے کہ وہ ایک قابل، روشن خیال، عشق مزاج، محبت کرنے والے اور تخیل میں رہنے والے ایک شاعر تھے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ کبھی بھی کسی ایک بات پر منحصر نہیں رہا انہوں نے شکوہ کیا پھر اس کا جواب دیا انہوں نے عشق کیا پھر خدا کی ذات کو بھی بیان کیا، انہوں خود پسندی پر شاعری کی تو پھر حقوق خلق پر بھی بات کی، لیکن افسوس کہ ہم نے اقبال کی اقبالیات کو ایک صفحے تک محدود کر کے نسلوں میں ان کا مجسمہ ایک خاص قسم کے شاعر کا پیش کر دیا جو کہ اقبال کے فن سے زیادتی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

مثال کے طور پر اقبال کی دل لگی اور خطوط کا مجموعہ آج بھی آپ کو دنیا بھرکی لائبریریز میں مل سکتا ہے جہاں وہ مغربی حسیناؤں سے عشق میں مبتلا ہو کر ان کو خطوط لکھتے ان کے ماہ رخ سے ان کی چنچل اداوں تک کو اپنے الفاظ میں شاعرانہ طور پر بیاں کرتے اور اپنی جائے پیدائش سے باغی ہو کر اپنی محبوبہ کی آغوش میں جانے کو ترستے تھے۔
اب آپ ملحظہ کیجئے کہ یہ باتیں اقبال بارے اگر کوئی بھرے مجمہ میں پاکستان میں کر دے تو اس پر تو توہین اقبال کا فتوی لگا دیا جائے گا جبکہ دنیا پھر میں اقبال کی رومانوی شاعری کا پرچار رہا ہے۔ آج بھی آپ عالمی ویب سائٹس پر جا کر ان کے قصوں کی روداد پڑھ سکتے ہیں، ان کے خطوط کی نقلیں آج بھی موجود ہیں کہ وہ کتنے عاشق مزاج اور حسن پرست روشن خیال انسان تھے۔

کئی سال قبل اسی طرح عالمی سائٹس نے اقبال پر ایک آرٹیکل شائع کیا تھا جس کے کچھ اقتباسات آپ سے شئیر کئے دیتا ہوں۔

جلوۂ حسن کہ ہے جس سے تمنا بےتاب
پالتا ہے جسے آغوشِ تخیل میں شباب
ابدی بنتا ہے یہ عالمِ فانی جس سے
ایک افسانۂ رنگیں ہے جوانی جس سے
آہ موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں
خاتمِ دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں

اب آپ اس شاعری کے بعد اقبال کا بطور پاکستان اقبال جو تعارف دیا جاتا ہے وہ سوچئیے آپ کی ہنسی نکلنا معمولی بات ہے۔ا سی طرح اقبال کو جب مغرب سے وطن واپسی پر وہاں کی حسینا کی یاد ستائی تو اقبال نے ایک جگہ فرمایا کہ

"ایک انسان کی حیثیت سے مجھے بھی خوش رہنے کا حق حاصل ہے، اگر سماج یا قدرت مجھے یہ حق دینے سے انکار کرتے ہیں تو میں دونوں کا باغی ہوں۔ اب صرف ایک ہی تدبیر ہے کہ میں ہمیشہ کے لیے اس بدبخت ملک سے چلا جاؤں یا پھر شراب میں پناہ لوں جس سے خودکشی آسان ہو جاتی ہے۔"(بی بی سی کے ایک آرٹیکل سے اقتباس)

اب یوں ہی آپ ملاحظہ کیجئے کہ یہ باتیں بری نہیں ہیں بلکہ انسانی فطرت ہیں، ہم بھی جب مجازی عشق میں مبتلا ہوتے ہیں تو ہر انسان ایسے ہی خیالات رکھتا ہے اور دن رات اپنے خیالوں میں اپنی حسینہ کا خیال لئے جھومتا رہتا ہے اور اگر عاشق اقبال جیسی شخصیت ہو جسے خدا نے الفاظ کو ترتیب دینے کا ہنر دیا تھا تو وہ کیا نہیں کہے گا۔

اسی حوالے سے ایک جگہ اقبال اپنے خطوط میں کہتے ہیں کہ

'میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا، آپ تصور کر سکتی ہیں کہ میری روح میں کیا ہے۔ میری بہت بڑی خواہش ہے کہ میں دوبارہ آپ سے بات کر سکوں اور آپ کو دیکھ سکوں، لیکن میں نہیں جانتا کیا کروں۔ جو شخص آپ سے دوستی کر چکا ہو اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ آپ کے بغیر جی سکے۔ براہِ کرم میں نے جو لکھا ہے اس کے لیے مجھے معاف فرمائیے۔'(یہ خط علامہ محمد اقبال کے ایملی ایما ویگےناسٹ کے نام جرمن زبان میں لکھے گئے متعدد خطوط میں سے ایک ہے)۔

اس طرح کے لاتعداد واقعات اور شعر اقبال کی اقبالیات میں موجود ہیں مگر افسوس ہمیں جو اقبال پڑھایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے وہ اقبال کی زندگی کا مختصر حصہ ہے، جس سے ان کی شخصیت کا مکمل اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔اگر آپ اقبال کو جاننا چاہتے ہیں تو بغیر تعصب اور تنگ نظری سے اقبال کو صرف ایک شاعر کے طور پر سوچ اور سمجھ کر پڑھئیے، آپ ضرور لطف اندوز ہوں گے۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@