اب سے چند سال قبل جس قسم کی لڑائیاں ٹیلی وژن ٹاک شوز میں مسلم لیگ ن کے نمائندوں اور سابق جرنیلوں کے درمیان دیکھنے میں آتی تھیں، آج تحریکِ انصاف کے نمائندوں اور انہی سابق جرنیلوں کے درمیان دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ تازہ ترین جھڑپ دنیا نیوز کے پروگرام آن دا فرنٹ میں دیکھنے میں آیا جہاں لیفٹننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کی تنقید سن کر PTI کے علی نواز اعوان اتنا بھڑک اٹھے کہ انہوں نے تمام آمروں کی ساری کرتوتیں گنوانا شروع کر دیں۔
امجد شعیب نے کہا یہ تھا کہ ایک طرف ایک ایسی جماعت ہے جس کا لیڈر اپنے بیٹے کو وزیر اعظم بنانا چاہتا ہے۔ ان کا اشارہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف تھا۔ پھر انہوں نے کہا کہ دوسرا لیڈر اپنی بیٹی کو وزیر اعظم بنانا چاہتا ہے۔ ان کی مراد یقیناً مسلم لیگ (ن) سے تھی۔ تیسری جماعت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ خیالات کی دنیا میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان صاحب لوگوں کو یہ خوشنما نعرہ دے کر آئے کہ وہ 90 دن میں کرپشن ختم کر دیں گے لیکن انہوں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں کہ آیا یہ ممکن بھی ہے؟ امجد شعیب کا کہنا تھا کہ عمران خان کو یہ نعرہ لگانے سے قبل سوچنا چاہیے تھا کہ اس ملک میں جتنے بڑے بڑے مافیا موجود ہیں، وہ اسے کرپشن کو ختم کرنے بھی دیں گے یا نہیں۔ امجد شعیب نے تنقید کو پھر ایک قدم آگے لے جاتے ہوئے کہا کہ سارے جہان سے 'electables' بھر لیے گئے۔ ویسے ماضی میں لوگ انہیں لوٹے کہا کرتے تھے، یہ خوشنما نام بھی انہیں عمران خان صاحب نے ہی دیا اور امجد شعیب بھی اسی کا استعمال کر رہے تھے باوجود اس کے کہ وہ تنقید کر رہے تھے۔ اس سے آپ کو پراپیگنڈا کی طاقت کا اندازہ بھی ہو جانا چاہیے۔ امجد شعیب کا مزید کہنا تھا کہ یہ electables انہیں کیسے ان مافیاز کے خلاف کچھ کرنے دیتے جن کا یہ خود حصہ تھے۔
جہانگیر ترین کی مثال دیتے ہوئے امجد شعیب نے کہا کہ جہانگیر ترین کو پارٹی سے اس وقت دور کیا گیا جب ان کا نام چینی سکینڈل میں آیا تھا۔ جہانگیر ترین لندن گئے تو ایک شخص بھی ان کو خدا حافظ کہنے ایئرپورٹ نہیں پہنچا۔ نہ ہی ان کی واپسی پر لوگوں نے کوئی ان کا فقید المثال استقبال کیا۔ لیکن جب وہ عدالت پیشی کے لئے گئے تو تحریکِ انصاف کے اپنے ہی 40 اراکین جا کر ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
کامران شاہد نے جب اس تنقید کا جواب دینے کے لئے علی نواز اعوان کو مائیک دیا تو انہوں نے پھر وہ کیا جو ن لیگ کے دورِ حکومت میں بھی شاذ ہی دیکھنے میں آتا تھا۔ وہ الگ بات ہے کہ ان دنوں ن لیگی نمائندے کی جانب سے کہی گئی ایسی بات کو بعد میں پروگرام سے غائب کر دیا جاتا تھا جس کی کئی مثالیں اسی پروگرام سے دی جا سکتی ہیں۔ علی نواز اعوان نے کہا کہ میں جنرل صاحب کا جواب دوں گا کہ خیالی دنیا میں رہنے یا Idealism نے اس ملک کو جتنا نقصان پہنچانا تھا یا نہیں پہنچانا تھا، اس پر تو آپ نے فیصلہ سنا دیا لیکن جتنا نقصان اس ملک کو fantasy-ism نے پہنچایا شاید آج تک کسی نے نہیں پہنچایا۔ یہ اصطلاح شاید ان کی اپنی ایجاد ہوگی کیونکہ سیاسی اصطلاحات کی لغت میں تو کبھی ایسی کوئی اصطلاح دیکھنے میں نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ اسکندر مرزا کو اٹھا کر دیکھ لیں، ایوب خان کو اٹھا کر دیکھ لیں، جنرل ضیا کو اٹھا کر دیکھ لیں، پرویز مشرف کو اٹھا کر دیکھ لیں۔ ایک اٹھ کر کہتا ہے جہاد فی سبیل اللہ کر لو، دوسرا آ کر کہتا ہے میں اعتدال پسند روشن خیالی کی طرف لے کر جانا چاہتا ہوں۔ ایک اٹھتا ہے پاکستان کو دوسرے کی جنگ میں جھونک دیتا ہے، دوسرا اٹھتا ہے، اپنے ملک میں امریکہ سے ڈرون حملے کروانا شروع کر دیتا ہے، اپنے لوگوں کو پکڑ کے امریکہ کے حوالے کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جتنا نقصان پاکستان کو fantasism نے پہنچایا ہے، کسی نے نہیں پہنچایا۔
جواباً امجد شعیب نے کہا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ مارشل لا کے بعد ہم جو کچھ ملک میں چھوڑ کر گئے وہ غلط تھا۔ چاہے مارشل لا نے اس ملک کو نواز شریف دیا یا ذوالفقار علی بھٹو دیا، وہ مارشل لا ہی کی غلطیاں تھیں۔
علی نواز اعوان نے کہا کہ ہماری تین سال کی حکومت کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں وہ جنہوں نے پاکستان کو تباہ کر دیا ہے۔ امجد شعیب نے کہا پاکستان کو تباہ کرنے میں اب تو آپ نے بھی اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ علی نواز اعوان نے امید بھرے لہجے میں کہا کہ تین سال میں جو ہوا، سو ہوا، اگلے تین سال میں ٹھیک بھی کر کے دکھائیں گے اور بہت بہتری بھی لے کر آئیں گے۔ یہ نہیں ہے کہ ہم نے ملک کی پوری پوری نسل تباہ کر دی ہو۔ کوئی جہاد فی سبیل اللہ، کوئی لوگوں کو پکڑ پکڑ کے دنیا کے حوالے کرنے والا کام نہیں کیا، پاکستان کو پوری دنیا میں فارغ کر کے رکھ دیا۔
امجد شعیب نے کہا یہاں تو تین سال ہو گئے ہیں، تباہ کرنے کے لئے تو ایک سال ہی کافی ہوتا ہے۔
علی نواز اعوان نے جواب دیا، تو پھر آپ نے 37 سال کیوں لیے؟؟؟
https://twitter.com/gm_uaegm/status/1458134412579819534