پاکستان کا محمد اقبال - وہ ایک مفکر جس پر بیرونِ ملک مقیم پاکستانی فخر کر سکتا ہے

07:25 PM, 9 Nov, 2022

عاصم علی
ایک عام انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ جب وہ اپنے علاقے، معاشرے اور ملک سے کہیں باہر جاتا ہے تو وہاں کے کلچر اور ماحول کے ساتھ اپنے کلچر کے نظریات اور قوانین میں مماثلت ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کے لئے یہ بھی فطری ہوتا ہے کہ وہ اپنے کلچر یا ملک کی بڑی شخصیات کے تذکرے کو پسند کرتا ہے اور اس کے لئے وہ موقع انتہائی خوشی اور فخر کا ہوتا ہے جب اس کے سامنے اس کے ملک کی کسی بڑی شخصیت کا ذکر عزت اور احترام سے کریں اور اس سے بھی زیادہ فخر کی بات یہ ہے کہ جب لوگ اس شخصیت کے ناصرف معترف ہوں بلکہ اس سے متاثر بھی ہوں۔

ہو سکتا ہے قارئین میں سے کچھ افراد اس بات سے اختلاف بھی کریں مگر بدقسمتی سے جب آپ کبھی بیرون ملک جائیں تو پاکستان میں سے ایسی بہت کم شخصیات ہیں جن سے بیرونی دنیا کے لوگ متاثر نظر آتے ہیں۔

بیرون ملک دوران تعلیم ایک مسلمان ہونے کا ناطے سب سے زیادہ مذہبی اور سیاسی مباحثے ترکی اور ایران کے ہم مکتب ساتھیوں کے ساتھ ہوتے تھے۔ جب کبھی اسلام کے عروج و زوال کی بات ہوتی تھی اور اسلام کی ماضی کی شان و شوکت اور اس کا پھر سے دنیا میں بول بالا کرنے کی بات ہوتی تھی تو ترک اور ایرانی دوست بار بار محمد اقبال کا حوالہ دینا فرض سمجھتے تھے۔

ابھی یہ الفاظ لکھتے ہوئے بھی ویسی رقت طاری ہو رہی ہے جو اس وقت طاری ہوتی تھی۔ بلا کی خوشی بھی محسوس ہوتی تھی اور فخر بھی محسوس ہوتا تھا کہ ہماری کوئی تو شخصیت ہے جس کو تبریز سے لے کر انقرہ تک ناصرف پڑھا جاتا ہے بلکہ مانا بھی جاتا ہے اور اس کے حوالے بھی دیے جاتے ہیں۔

ویسے بھی غریب اور پسماندہ افراد ہوں یا قومیں ان کی زندگی میں ایسی شخصیات کی ہمیشہ سے کمی رہی ہے جن پہ وہ فخر کر سکیں۔ مگر ان غریب اور پسماندہ افراد اور قوموں میں ایک دیرینہ مرض ہے کہ یہ اپنے عظیم لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتے اور ان کی شخصیت کی کمیوں اور ابتریوں کی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔ اسی تاریخی ستم کا شکار محمد اقبال بھی نظر آتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک مخصوص طبقہ اقبال مخالفت میں کچھ زیادتی کر گیا ہے۔ وہ اقبال کو وہ دیکھنا چاہتے ہیں جو وہ نہیں تھا مگر وہ یہ جاننے اور ماننے کی کوشش نہیں کرتے کہ اقبال کیا تھا۔




یہ بھی دیکھیے






پاکستان میں ایک مکتبہ فکر ہے جو اقبال پہ سیاق و سباق سے ہٹ کر تنقید کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ پاکستان میں آج کل جب تک آپ اقبال کا مذاق نہ اڑائیں اور ان کی ذات میں کیڑے نہ نکالیں، آپ ترقی پسند اور ماڈرن نہیں کہلوا سکتے۔ اس لئے یہ فیشن بن گیا ہے کہ اس وقت تک آپ آزاد خیال نہیں کہلائیں گے جب تک اقبال پہ ہاتھ صاف نہ کریں۔ اس مکتبہ فکر میں بھی آگے مزید گروہ ہیں جن کو اقبال سے الگ الگ مسائل ہیں۔ ایک وہ گروہ ہے جو مذہب سے انتہائی بیزار ہے اور اقبال سے اس لئے بغض رکھتا ہے کہ اقبال کی سوچ، فلسفے اور ان کی شاعری میں مذہب کا عنصر بہت غالب ہے۔

ایک وہ گروہ ہے جو ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کی الگ ریاست کے طور پر وجود پہ اعتراض رکھتا ہے وہ اس لئے اقبال سے عناد رکھتا ہے کہ خطبہ الہٰ آباد جس میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کا نظریہ پیش کیا گیا وہ اقبال سے منسوب ہے۔

ان میں ایک وہ گروہ بھی ہے جو اقبال کی شاعری اور فلسفے میں مسلسل تغیر کو عیب سمجھتا ہے۔ ان کے مطابق اقبال مختلف ادوار میں مختلف نظریات، فلسفوں اور تحریکوں سے متاثر نظر آتے ہیں نیز اقبال کے نظریات اور خیالات میں ٹھہراؤ کا فقدان تھا۔ ان میں ایک طبقہ وہ بھی ہے جو اقبال سے ان کی شہرت اور قابلیت اور دنیا میں ان کے عزت و احترام کی وجہ سے ان سے کینہ اور حسد رکھتا ہے۔ اور کبھی کبھی بدقسمتی سے مشہور، بلند اور منفرد دکھنے کے لئے ان شخصیات پر اعتراض اور تنقید لازم سمجھی جاتی ہے جن کی شخصیت کا وقار معاشرے میں مسلم ہو۔

پہلا گروہ جو اقبال سے ان کے مذہبی تشخص کی وجہ سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے وہ اقبال کی معاشرتی حقیقتوں کو مد نظر نہیں رکھتا۔ اقبال ایک مڈل کلاس مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں پر ان کے لئے فطری امر ہے کہ مذہب کا پہلو ان کی شخصیت میں جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ مڈل کلاس اور پسماندہ قوموں میں پیدا ہونے والے افراد کو ساری عمر شناخت کی کھوج اور جستجو کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ انسان جتنا بھی آزاد خیال اور ترقی پسند ہو جائے اس کی معاشرتی حقیقتیں اس کی فطرت ثانیہ بن کر اس کے ساتھ جڑی رہتی ہیں۔ انتہائی ترقی پسند اور آزاد خیال لکھاری سعادت حسن منٹو جب ہندوستان کی تقسیم کے وقت پاکستان ہجرت کا سوچ رہے تھے تو ان کے دیرینہ دوست شام چڈا نے منٹو صاحب کو کہا کہ تم پاکستان کیوں جا رہے ہو، تم کون سا بڑے مسلمان ہو؟ تو منٹو صاحب نے جواب دیا کہ اتنا مسلمان تو ہوں کہ مارا جا سکوں۔



مگر اقبال نے کبھی بھی مذہبی لاشعور کو اپنی ذات اور فلسفے پر غالب نہیں آنے دیا۔ ایک طرف انہوں نے مسلمان قوم کو جہالت اور قدامت پسندی کو ترک کر کے اسلام کے سائنٹیفک نظریات کو اپنانے کی تلقین کی تو دوسری طرف انہوں نے 'سارے جہاں سے اچھا ہے ہندوستان ہمارا' لکھ کرمذہب سے بالاتر ہو کر اپنی حب الوطنی کا بھی ثبوت دیا۔ اقبال جہاں ایک طرف اسلامی شخصیات اور تعلیمات سے متاثر دکھائی دیے وہیں پر انہوں نے غیر مذہب مفکروں کی بھی تعریف اور تائید کی۔ کارل مارکس، لینن، گوئٹے، امینوئل کانٹ، برٹریند رسل اور یونانی فلسفیوں کے بھی قائل نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ ہندو لیڈروں گاندھی، نہرو اور عظیم بنگالی شاعر رابندرناتھ ٹیگور کے نظریات کو بھی سراہتے ہیں۔ ایک مذہبی متعصب شخص اتنی وسعت قلبی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔ ہاں اپنے عقیدے پر قائم رہ کر دوسرے عقیدوں اور نظریات کو بھی ماننا ایک عظیم دانشور کا وصف ہوتا ہے۔



یہ بھی پڑھیے: سیاست، مذہبی ریاست، سیکولر نظریہ اور علامہ اقبال، تاریخ دان و محقق فیصل دیوجی کی نظر میں







دوسرا وہ گروہ جو اقبال کو تقسیم ہندوستان کو قصوروار ٹھہراتا ہے کہ اقبال نے 1930 میں الہٰ آباد کے جلسے میں مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔ اقبال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 1930 سے لے کر 1938 تک اس بات کی وضاحتیں دیتے رہے کہ میں نے کبھی ہندوستان کو توڑنے کی بات نہیں کی۔

اگر اقبال کے 1930 والے خطبے کو بغور پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اقبال نے کبھی بھی ہندوستان کی تقسیم کی بات نہیں کی۔ ان کا صرف یہ کہنا تھا کہ یورپ کے ایک قوم اور ایک ریاست والا سیاسی نظریہ ہندوستان پہ لاگو نہیں ہو سکتا کیوں کہ یورپی اقوام ایک کلچر، مذہب اور رہن سہن کے اصولوں پر اکٹھی ہیں جب کہ ہندوستان تو ایک قوم نہیں بلکہ کافی ساری قوموں کا مجموعہ ہے اور مزید یہ کہ ہندو جو کہ ایک اکثریتی قوم ہے وہ بھی ایک کلچر اور رہن سہن پر اکھٹے نہیں ہیں۔ لہٰذا پورے ہندوستان کے لئے یکساں نظام مکمن نہیں ہے۔ اس لئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایک مسلمان ریاست کا وجود 'ہندوستان کے اندر' ناگزیر نظر آتا ہے۔

اقبال نے کہا تھا کہ ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے نا کہ ہندوستان کو تقسیم کر کے۔ دراصل وہ خود مختاری کی بات کر رہے تھے جیسا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہے۔ جیسا کہ آج کل عراق میں کردستان کی حکومت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہندوستان کی تقسیم اقبال کی وفات کے نو سال بعد ہوئی اور اس تقسیم کا منصوبہ 3 جون 1947 میں بنایا گیا۔ ہندوستان کی تقسیم کے ذمہ دار وہ طبقے تھے جن کے پاس اس وقت طاقت اور اختیار تھا۔

تیسرا وہ گروہ ہے جو اقبال کے خیالات اور نظریات میں مسلسل تغیر کو عیب گردانتا ہے۔ ایک عام انسان سے لے کر ایک فلسفی اور عظیم لیڈر تک سب اپنی زندگی کے ارتقائی مراحل میں مسلسل سیکھتے رہتے ہیں اور ان کی سوچ اور خیالات میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ یہ ایک نارمل اور فطری عمل ہے۔ اقبال بنیادی طور پر شاعر ہیں اور ایک شاعر کی طبعیت اور خیالات میں تغیر ایک لازمی جزو ہے اور شاعروں کا مزاج موسموں کی طرح بدلتا ہے۔ کبھی پت جھڑ تو کبھی موسم بہار، کبھی سرد اور کبھی گرم۔

انسان جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے، پرورش پاتا ہے اور زندگی گزارتا ہے وہ اس کے خیالات کے اوپر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لئے اقبال ایک وقت میں ہندوستانی بھی ہیں، مسلمان بھی ہیں، پنجابی بھی ہیں اور کشمیری بھی۔ اقبال فلسفی بھی ہیں، مفکر بھی ہیں، انقلابی بھی ہیں، شاعر بھی ہیں اور تصوف اور عرفان کے متلاشی بھی۔ لہٰذا ان کے خیالات کا ہونا مختلف کرداروں کو نبھانے کی جستجو ہے۔




یہ بھی دیکھیے:






چوتھا وہ گروہ ہے جس نے اقبال سے حسد اور کینے کی بنیاد پر ان کی ذات کو کم تر اور عیب تر بنانے کی کوشش کی۔ یہ گروہ اقبال کی شہرت اور شخصیت کے معیار سے کینہ رکھتا ہے اور مسلسل ان کے فلسفے کو متروک اور ان کی سوچ کو ناقص بنانے پر تلا رہتا ہے۔ اس طبقے کا نشانہ صرف اقبال نہیں ہے بلکہ ہر وہ دانشور ہے جس نے اپنے عقیدے اور سوچ کو زندہ رکھ کر غریبوں کو اٹھانے کی کوشش کی اور اس سفر میں وہ پورا مغربی بھی نہیں ہوا۔ اسی گروہ سے تعلق رکھنے والے ایک آدھ درجن نظموں کے مصنف نے یورپ میں بیٹھ کر 8 نومبر کو کہا ہے کہ 9 نومبر پر اقبال ڈے کی چھٹی کرنے کی بجائے 8 نومبر کو جون ایلیا کے یوم پیدائش پر چھٹی کرنی چاہیے۔ بلاشبہ جون ایک عظیم شاعر ہے مگر اس کو اقبال کے مدِ مقابل کھڑا کرنا خود جون کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ ایسا موازنہ کرنا صرف اقبال سے کینے کو ظاہر کرتا ہے۔

اقبال کو اس کی معاشرتی، علاقائی اور عقیدے کی حقیقتوں میں ترازو میں رکھ کر پرکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اقبال کے دور کے سیاسی حالات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ مرزا غالب کی شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی شاعری میں دکھ، کرب اور مایوسی کا عنصر واضح ملتا ہے، وہ اس لئے کہ غالب کے دور کے سیاسی حالات شدید ابتر تھے جس کے اثرات غالب کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ اقبال کی تعریف کرتے ہوئے اور ان کو مانتے ہوئے اب بشریت کی خامیوں کے پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کر دینا چاہیے۔ کوئی فلسفی اور مفکر تنقید یا خامیوں سے مبرا نہیں ہے مگر خامیوں اور غلطیوں کے باوجود کسی کے کردار کے مثبت پہلوؤں کو ماننا انصاف کے زمرے میں آتا ہے۔

مگر ہمارے معاشرے کو آج کل ایک مسئلہ درپیش ہے۔ ہم محبت اور نفرت دونوں میں شدت پسند پائے گئے ہیں جب کہ زندگی کا اصل رنگ سیاہ و سفید نہیں بلکہ سرمئی ہے۔ شخصیات کو جانچنے اور پرکھنے کا آخری معیار یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کتنے لوگوں اور کتنی سوچوں کو متاثر کیا۔ پاکستان کے محمد اقبال نے برصغیر پاک و ہند سے لے کر ایران، ترکی، عرب، افریقہ اور یورپ تک لوگوں کے سوچوں اور ذہنوں پر ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

اپنی شناخت اور پہچان بنانے کی جدوجہد کرنے والی غریب قوم فرد ہونے کے ناطے مجھے پاکستان کے محمد اقبال پر فخر ہے۔ عظیم اسلامی سوشلسٹ مفکر ڈاکٹر علی شریعتی نے اقبال کے بارے میں کہا تھا کہ جب میں اقبال کے بارے میں سوچتا ہوں تو ان کو 'علی نما' پاتا ہوں!
مزیدخبریں