ٹک ٹاک پر پابندی: عالمی سیاست اور ’پابندستان‘

12:44 PM, 9 Oct, 2020

علی وارثی
یہ تحریر اگست 2020 میں لکھی گئی تھی اور ہمارے یوٹیوب چینل پر ویڈیو کی صورت میں بھی موجود ہے۔ آج پاکستان میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد اسے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

14 اگست کو جس وقت پاکستانی نوجوان لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آزادی کا جشن منا رہے تھے اور ان میں سے کئی منچلے یہ ویڈیوز ٹک ٹاک پر اپلوڈ کر رہے تھے، ٹھیک اسی روز امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ ٹک ٹاک بنانے والی کمپنی ByteDance کو حکم دے رہے تھے کہ یہ امریکہ میں سے اپنی تمام تر سرمایہ کاری واپس نکال لے۔ ڈانلڈ ٹرمپ اس سے چند روز قبل ٹک ٹاک پر فوری طور پر امریکہ میں پابندی لگانے کا عندیہ بھی دے چکے تھے، اور ایسا کرنے والے وہ دنیا کے پہلے سربراہ مملکت بھی نہ ہوتے۔ اس سے پہلے ہی بھارت میں ٹک ٹاک پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ جب کہ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں بھی اس ایپ پر ماضی میں پابندیاں لگ چکی ہیں۔

بھارت میں پابندی کی وجہ اس کی چین کے ساتھ سرحدی جھڑپیں تھیں جن میں بھارت کو شدید ہزیمت اٹھانا پڑی تھی اور اس نے ٹک ٹاک سمیت متعدد چینی سوشل میڈیا ایپس پر پابندی لگا کر اپنی بھڑاس نکال لی تھی۔ انڈونیشیا میں ٹک ٹاک پر پورنوگرافی، توہینِ مذہب اور ’نامناسب مواد‘ کی شکایات پر بند کیا گیا تھا لیکن پھر ٹک ٹاک نے فوری طور پر وعدہ کیا کہ وہ 20 افراد کو محض انڈونیشیا میں ٹک ٹاک پر اپلوڈ ہونے والے مواد کو دیکھنے کے لئے رکھے گا تو آٹھ دن بعد یہ پابندی ہٹا لی گئی تھی۔ بنگلہ دیش میں پورنوگرافی پر ویسے ہی پابندی لگی تو اس میں ٹک ٹاک پر بھی پابندی عائد کر دی گئی جب کہ ٹک ٹاک کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

یورپ اور امریکہ جیسے نام نہاد آزاد معاشروں میں بھی ٹک ٹاک پر مختلف طویقوں سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور امریکہ نے تو اسے بند کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے۔ مغربی ممالک میں بارہا اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ٹک ٹاک لوگوں کا ڈیٹا چوری کر کے اسے چین کی کمیونسٹ حکومت کو فراہم کر سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کی ذاتی معلومات کو کسی بھی حکومت کے ساتھ شیئر کرنا درست نہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ گوگل، فیسبک، ٹوئٹر سمیت متعدد امریکی ادارے بھی اس کام میں ملوث رہے ہیں لیکن ان کو تو کبھی اپنی سرمایہ کاری سمیٹ کر کوئی اور دھندا ڈھونڈنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ گو کہ اس پر متحارب نظریات رکھے جا سکتے ہیں لیکن قوی امکان ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے کے پیچھے انہی کمپنیوں کا ہاتھ ہے۔

ٹوئٹر، فیسبک، یوٹیوب ٹک ٹاک سے خائف کیوں؟

یہ سوال بالکل جائز ہے کہ ٹوئٹر، فیسبک یا گوگل کو ٹک ٹاک سے کیونکہ خطرہ ہو سکتا ہے جب کہ یہ کمپنیز تو دنیا بھر میں اپنے صارفین پہلے ہی بڑی تعداد میں رکھتی ہیں۔ لیکن اس سوال کو اٹھانے والے ایک بات بھول جاتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی دنیا ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی جیسی ہم آج دیکھتے ہیں۔ فیسبک سے پہلے متعدد مقبولِ عام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جو آج بند ہو چکے ہیں۔ کیا موجودہ نسل نے MSN، Yahoo، MIRC یا ICQ جیسے chat rooms کا نام سنا ہے؟ یہ تمام پلیٹ فارم اپنے اپنے زمانے کے ٹوئٹر تھے کہ جہاں مختلف لوگ ایک دوسرے کے ساتھ یا گروپس میں بات کیا کرتے تھے۔ انجان لوگوں سے ملنا، باتیں کرنا اس دور کی internet sensation تھی۔ اس کے بعد Orkut اور Myspace جیسی ویب سائٹس نے انٹرنیٹ کی دنیا پر راج کیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ کئی ایپس خرید لی گئیں۔ مثلاً وٹس ایپ کو فیسبک نے اب سے چند برس قبل ہی خریدا تھا جب کہ اس سے پہلے ٹوئٹر کو گوگل نے خریدا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا بھی حقیقی دنیا کی طرح ہی ہے کہ جہاں کاروبار بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ لیکن جس طرح حقیقی دنیا میں سب کچھ fair نہیں ہوتا، ویسے ہی سوشل میڈیا پر بھی ضروری نہیں کہ ہمیشہ انصاف ہی ہو۔ مغربی ممالک کہ جہاں سوشل میڈیا پر جنوبی ایشیا یا چین کے مقابلے میں افراد تعداد میں کم ہیں لیکن یہ ایک طاقتور e-commerce مارکیٹ رکھنے کے باعث کسی بھی سوشل میڈیا کمپنی کے لئے اشتہارات کی مد میں کہیں زیادہ منافع بخش ثابت ہوتے ہیں، ان کی حکومتیں اپنی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے چینی کمپنیوں پر پابندیاں لگاتی ہیں۔ اور چین میں بھی یہ تمام بڑی بڑی ویب سائٹس بشمول فیسبک، وٹس ایپ، ٹوئٹر، یوٹیوب، گوگل وغیرہ پابندیوں کا شکار ہیں یا پھر ان کے مقابلے میں کہیں بڑی بڑی کمپنیاں موجود ہیں جو کہ چین کی حد تک خاصی کامیاب بھی ہیں اور ڈیڑھ ارب کی مارکیٹ ہوتے ہوئے انہیں صارفین یا اشتہارات کی بھی کوئی کمی نہیں۔

جہاں تک لوگوں کی ذاتی معلومات کی حکومتوں یا hackers تک رسد کی بات ہے تو وہ محض ایک بہانہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ خاص کر کہ جب ہم دنیا بھر میں آئے روز Cambridge Analytica، WikiLeaks اور پھر ایڈورڈ سنوڈن جیسے معاملات دیکھتے ہیں تو کم از کم یہ تو طے ہے کہ نہ صرف یہ حکومتیں اس معاملے پر کوئی کارروائی نہیں کرتیں بلکہ اپنے مفادات کی خاطر ان کمپنیوں سے معلومات بھی حاصل کرتی ہیں۔ یوں کہا جائے کہ اپنی کمپنیوں سے معلومات اپنی حکومتوں تک آتی رہیں تو ٹھیک ہے لیکن مخالف ممالک سے تعلق رکھنے والی کمپنیاں یہ کام نہ کریں، اس کا خوف ان دونوں کیمپس کو کھائے جاتا ہے۔

مگر ٹک ٹاک سے مسئلہ صرف مغربی ممالک کو نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ بھارت، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں بھی یہ کمپنی پابندیوں کا شکار رہی ہے۔ اس کی وجہ جہاں سیاسی ہے، وہیں طبقاتی تقسیم کا پہلو بھی انتہائی اہم ہے۔ گذشتہ برس ٹوئٹر پر اپنے ایک تھریڈ میں صحافی اور سماجی حقوق کے کارکن عمران خان iopyne نے خاص طور پر دو لڑکوں کے ایک چینل پر ایک مختصر تحقیق کی تھی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ان لوگوں اور دیگر معاشی طور پر غیر مراعات یافتہ طبقے کو ٹک ٹاک کی صورت میں ایک ایسا میڈیم میسر آ گیا ہے کہ جہاں یہ اپنی بات کر سکتے ہیں اور لوگ ان کی بات کو، ان کی ویڈیوز کو سن رہے ہیں، انہیں فالو کر رہے ہیں۔ جہاں ٹوئٹر اور فیسبک بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات کے لئے استعمال کرنا آسان ہے، مڈل کلاس اس مشغلے سے خوب محظوظ ہوتی ہے لیکن نچلے طبقات کے لئے یہ پلیٹ فارم بھی استعمال کرنا خاصہ مشکل ہے۔

ٹک ٹاک نے انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے جہاں یہ چھوٹی چھوٹی ویڈیوز کے ذریعے معاشی طور پر اپنے سے کہیں زیادہ متمول افراد کو فالؤرز کی تعداد کے حوالے سے پچھاڑ دیتے ہیں۔ ٹک ٹاک نے میدان کو سب کے لئے برابر کر دیا ہے۔ جس میں ٹیلنٹ ہو، وہ یہاں سٹار بن سکتا ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ 2017 میں چین سے باہر کام شروع کرنے کے بعد 2019 تک صرف دو سال میں 54 کروڑ سے زائد نئے صارفین اسے ڈاؤن لوڈ کر چکے تھے اور ٹوئٹر اور سنیپ چیٹ کو یہ ایپ پیچھے چھوڑ چکی تھی۔

لیکن جہاں یہ ایپ نچلے طبقے کو اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا موقع فراہم کرتی ہے اور انہی سے نئے سٹار پیدا کر رہی ہے، وہیں اس کا سب سے بڑا drawback بھی یہی ہے کہ متمول طبقے کے لوگ، مرکزی دھارے کے میڈیا سلیبرٹی، سیاستدان، اہم حکومتی شخصیات اس پلیٹ فارم کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ یعنی معاشرے کے وہ بااثر طبقات جو ٹوئٹر اور فیسبک کو اپنی مقبولیت میں اضافے کے لئے استعمال میں لا رہے ہیں، وہ ٹک ٹاک پر موجود ہی نہیں۔ تو جب اس پر پابندی عائد کرنے کی بات ہوتی ہے تو سماجی حقوق کے کارکنان، آزادی اظہار کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں تو شور مچاتی ہیں لیکن وہ افراد جو دراصل اثر و رسوخ رکھتے ہیں، وہ اس کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مثلاً ISPR کے ڈائریکٹر جنرل یا وزیر اعظم عمران خان یا اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے اگر کوئی بیان جاری کرنا ہوگا تو وہ اس کے لئے ٹوئٹر کا استعمال کریں گے، نہ کہ ٹک ٹاک کا۔ لہٰذا جب ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کا وقت آتا ہے، تو اس متمول طبقے کے مفادات کو کوئی گزند نہیں پہنچتی اور نتیجتاً ٹک ٹاک کو بند کرنا قدرے آسان ہے۔

لیکن اس کی ایک dark side یہ ہے کہ یہ تمام بااثر افراد ان نچلے طبقات کو نہیں، مڈل کلاس کو اپنا مخاطب سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسی طبقے میں مقبول ہونا ان کے بیانیے کی جیت ہے۔ اور دوسری جانب تحریک لبیک جیسی جماعتوں کے حامی ٹک ٹاک پر بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اپنا پیغام اپنے سننے والوں میں بخوبی پہنچا رہے ہیں۔ ہمارے جیسے ملک میں اگر آپ کرتا دھرتاؤں کو اس دوبیدا کے بارے میں بتائیں گے تو ان کے دماغ میں اس کا پہلا حل یہی آئے گا کہ اس ایپ پر پابندی عائد کر دی جائے۔ لیکن وہ نچلے طبقات جن کی یہ ایپ آواز بن کر ابھری ہے، وہ تو پھر کوئی اور ذریعہ اپنی بات کہنے کا ڈھونڈ ہی لیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ایپ کے اصل potential کا ادراک کرتے ہوئے، اسے ان محروم طبقات کے ساتھ بات کرنے کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کیا جائے تاکہ معاشرے میں طبقاتی تقسیم کے پنپنے کے مواقع کم ہوں اور مکالمے کے رجحان کو فروغ ملے۔
مزیدخبریں