جب اُس واقعے کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا تو بس لوگوں نے اسے عادت ہی سمجھ لیا۔ اور اب یہ عادت اتنی پکی ہوگئی ہے کہ جب کوئی پشاور کا رخت سفر باندھتا ہے وہ کچھ بھی بھول سکتا ہے مگر وہ شناختی کارڈ نہیں بھولے گا۔ بعض گاڑیوں میں توشناختی کارڈ کے بغیر انٹری ہی نہیں ہے۔ اگر آپ کے پاس شناختی کارڈ نہیں تو آپ گاڑی میں سفر بھی نہیں کرسکتے ۔ اب جب سے کورونا نامی وبا نے سراٹھایا ہے شناختی کارڈ ایک ثانوی سی حیثیت اختیار کرگئی ہے اب ہر جگہ پوچھا جاتا ہے ماسک کہا ہے ۔ اور شناختی کارڈ کا اب پوچھا بھی نہیں جاتا۔ ہر جگہ ماسک پہننے کے احکامات نصب ہیں۔
کسی بھی جگہ جانے کے لئے ماسک کا ہونا جزولاینفک ہے ۔ سرکاری دفاتر میں اس کے بغیر انٹری ناممکن ہے ۔ جو ماسک استعمال کئے جارہے ہیں اس پر کہا گیا ہے کہ کہ یہ کورونا سے بالکل نہیں بچاسکتے مگر گزشتہ روز وزیراعظم عمران نے پھر کہا کہ سردی میں کورونا کی دوسری لہر سے خود کو بچانے کے لئے ماسک پہننا لازمی ہے ۔ ماسک کتنا لازمی ہے یہ گزشتہ روز مجھے تب پتہ چلا جب میرا بیٹا ضیاف سکول جاتے ہوئے راستے سے واپس ہوا اور شور مچانا شروع کردیا کہ میرا ماسک کہاں ہے۔ جو میں بھول گیا ہوں اس دوران بیٹی ضوباش نے بھی واپس ہوکر سینیٹائزر ہاتھ پر ملتے ہوئے کہا کہ اس سے میں نے کورونا کا مار دیا ہے اور ضیاف نے جوابا کہا کہ میں نے ماسک پہن کر کورونا کو شکست دے دی ہے۔
تو میں سوچنے لگا کہ واقعی کورونا کو ماسک اور سینیٹائزر سے شکست دی جاسکتی ہے ۔ اس سوچ میں غلطاں پشاور آیا تو ڈرائیور نے گاڑی میں ماسک پہننے کا حکم دیا. تھوڑی سانس کی تکلیف ہوئی تو ہٹا دیا مگر ایک چیک پوسٹ پر شناختی کارڈ دکھاتے ہوئے حکم صادر کیا گیا کہ ماسک لگائیں ۔شام کو ایک پرائیویٹ ہسپتال ڈاکٹر کے پاس جانا ہوا تو دروازے پر ہی میرے دوست کو روکا گیا کہ ماسک کہاں ہے ۔وہ بولے کہ بھول گیا ہوں تو کہا گیا کہ ماسک کے بغیر انٹری نہیں ہے بیس روپے کے ماسک کے بعد وہاں انٹری کرائی گئی۔ اُس نے ماسک لیا ہوا تھا جبکہ میں نے دوبارہ کچھ وقت کے لئے ماسک کو ہاتھ میں لیا ہوا تھا۔ سیکورٹی گارڈز نے دونوں کو جانے دیا کیونکہ اسُ نے ماسک لگایا ہوا تھا اور ہم نے ماسک ہاتھ میں لیا ہوا تھا ۔ یعنی ماسک کی موجودگی ہر جگہ پر اب شناختی کارڈ سے بھی اہم ہوگئی ہے اس لئے ماسک رکھائے اور ہر جگہ گھومیئے پھیرئے.کیونکہ موجودہ دور میں شناختی کارڈ سے ماسک کا ہونا بہت ضروری ہے.