انصار صاحب ایک پائے کے صحافی ہیں۔ انکی نظر ہر وقت ادھر ادھر چھپی ہوئی خبروں کی تلاش میں ہوتی ہے اور فارغ وقت میں وہ فحاشی کی تلاش کرتے ہیں کہ جہاں ملے وہیں مار دیں۔ بلکہ گزشتہ چند سالوں میں اس پر ہونے والی ٹویٹس کو اگر دیکھا جائے انسان کنفیوز ہوجاتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ انکی نظریں ہر وقت فحاشی کی تلاش میں ہوتی ہوں اور صرف فارغ وقت میں ہی وہ خبروں کو کھوجتے ہوں۔ بہر حال جو بھی معاملہ ہے انصار صاحب کی آواز نے وہ جادو کردیا کہ پیمرا نے گالا کا یہ اشتہار کہ جو عباسی صاحب کو مجرا نظر آیا مگر تھا وہ رقص کے سیکیونسز کا مجموعہ، بند کرادیا گیا۔ جس پر عباسی صاحب نے کلمہ شکر کے ساتھ مخریہ کلمات بھی ادا کیئے۔
اشتہار بند ہوا تو سوشل میڈیائی میدان جنگ میں ایک بار پھر فوجیں صف آرا ہوگئیں۔ ایک طرف اشتہار کی بندش پر خوش جوشیلے افراد جن کے بقول یہ امر اسلام کی خدمت عظیم ہوگئی۔ تو دوسری جانب وہ لوگ جن کے بقول اس اشتہار کی بندش ایک شدت پسندانہ اور غیر ضروری کاوش تھی جو سوائے ماحول کو اور حبس زدہ اور گھٹن کی لپیٹ میں دینے کے اور کچھ نہیں ہے۔
یہ لوگ یہ بھی کہتے پائے گئے کہ جن کو فحاشی ہر شے میں نظر آتی ہے وہ تب کیوں چپ ہوتے ہیں جب اللہ کے گھر میں یا مدرسوں میں معصوم بچوں سے زنا باالجبر کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے تو یہ بحث بھی کافی کشادہ کینوس پر کھچی ہے کہ اس کانتیجہ بحث کے آگے بحث ہی ملے گا۔
ہمارے نزدیک تو یہ امر عجیب ہے کہ جیسا گالا بسکٹ کا اشتہار ہے تقریبا اس سے ملتا جلتا اشتہار ہی دوستی چائے کا ہے بلکہ اس میں تو زیادہ آسودہ انداز میں جنس مخالف کو ایک دوسرے کے قریب ترین دیکھا جا سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس اشتہار میں وہ سب کچھ ہے جو ایک عام ناظر کو تو شاید کوئی تکلیف نہ پہنچاتا ہو لیکن عباسی صاحب اور ہمنواوں کی جانب سے سخت ترین رد عمل کا متقاضی ٹھہرنے کے لئے مکمل طور پر میرٹ پر اترتا ہے۔ اور تو اور اس اشتہار کے بارے میں کئی لوگ انصار عباسی کو سوشل میڈیا پر ٹیگ کر کر کے انکی توجہ بھی اسکی جانب مبذول کرانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ لیکن کیا کریں کہ انکی توجہ اس کی جانب مبذول ہو کر ہی نہیں دے رہی۔
لیکن تھوڑی سی تحقیق کریں تو اس کی وجہ بھی معلوم ہوجاتی ہے۔ اب برا ہو فحاشی پر مبنی اشتہار بنانے والوں کا کہ انہوں نے یہ اشتہار جس دوستی چائے کا بنایا ہے وہ فوجی فوڈز کا پراڈکٹ آئٹم ہے۔
اب بھلا اس برانڈ نیم کے ساتھ چاہے کوئی کچھ بھی کرے ۔۔۔ وہ تو سب جائز ہے۔ پھر چاہے معاملہ سول حکومت میں مداخلت کا ہو یا پھر کسی مبینہ فحش اشتہار کا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فحاشی کی لعنت کے خلاف بر سر پیکار مجاہد اول جناب انصار عباسی صاحب کی ٹویٹر تلوار نے اس اشتہار کی باری اپنی میان میں ہی رہنے پر افادیت جانی۔۔۔