کمرے نے چکر کھانا شروع کر دیا۔کسی دوست نے اپنے سر کی چکر کھانے کی نشاندہی کی اور کوئی دوست خود چکر کھا رہا تھا۔ اتنے میں چار سیکنڈ تو لگے ہمیں بھی معلوم ہو گیا کہ زلزلہ ہے۔ تھوڑے انتظار سے زلزلہ ختم نہیں ہوا تو ہم دوسری منزل سے نیچھے جانے کی کوشش کرنے لگے۔
ہمارے دروازے پہ رش لگ چکا تھا۔ نفسا نفسی کا سماں تھا۔ جان بچانے کے لیے تیسری منزل والے دوسری اور دوسری منزل والے پہلی منزل کی طرف دوڑیں لگا رہے تھے۔ہم بھی دس سیکنڈ بعد خوشی کے منظر کو خوف میں منتقل ہوتا دیکھ کر رش میں رش لگا کر روڈ پہ آ گئے۔
ہر کوئی خوفزدہ تھا۔کوئی رو رہا تھا تو کوئی خوشی میں اس لیے آنسو بہا رہا تھا کہ میں بچ گیا۔ کوئی اپنے گھر والوں کو فون کر رہا تھا تو کوئی اس انتظار میں تھا کہ زلزلہ کب ختم ہوگا۔ ہم کیسے ہوں گے، یہ عمارت،اس کے اندر امیدیں کس مٹی کے ملبے تلے دب گئی ہوں گی۔
اتنے میں،میں نے دیکھا کہ قریبی ہوٹل سے کوئی صاحب اپنی قمیض کو پہنتے ہوئے سیڑھیوں سے ہنستے مسکراتے نیچے آ رہا ہے۔ کاؤنٹر پہ موجود ہوٹل کا عملہ (جو زلزلے کی وجہ سے اپنے کام کاج چھوڑ کے نیچے آیا تھا) ان سے مخاطب ہوا اور ہنستے مسکراتے کہنے لگا کہ 'آپ نے کاؤنٹر چھوڑ دیا ہاہاہاہا'۔اس کی باتوں سے مجھے لگا کہ یہ ہوٹل کے منیجر ہیں، بعد میں کسی صاحب نے فرمایا صاحب ہوٹل کے مالک ہیں۔
اس کی بات سے مجھے ہنسی آئی۔ میں سوچنے لگا کہ موت بھی کیا ظالم چیز ہے۔ بڑوں کو ڈراتی ہی ہے اور جب حالات کی معمولی ہوگی تو یہی صاحب رعب سے کہتے ہیں کہ تم بھاگ گئے۔حالانکہ صاحبِ ہوٹل بھی موت کی ڈر سے ہی بھاگ کر نیچے آیا تھا۔
موت نے ہمیں ڈر کے سفر کا مسافر بنا دیا۔ دس منٹ گزرے تو ہرنائی کی ہولناک داستان شے سرخیوں کی زینت بنتی گئی۔
سینکڑوں مکانوں گر گئے یہی خبر زندگی ختم ہوئے تک غائب ہو گئی۔ بیس لوگوں کی شہادت،دو سو سے قریب زخمی،کچھ کی حالت نازک،لوگوں کے گھر زمین بوس۔۔۔ہم سنتے گئے،لوگ کہتے رہے۔۔
خوف ختم ہوا تو ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے گئے۔۔۔کہ اے اللہ آپ نے ہمیں عمارت کی دوسری منزل سے محفوظ کیا اور ایسے کچے،سنگل اسٹوری گھروں کے لوگ اس زلزلے میں لقمہِ اجل بن گئے۔