کیا جہانگیر ترین،عون چوہدری،علیم خان اور پرویز خٹک کو بشریٰ بی بی نے 'آؤٹ' کیا؟

07:16 AM, 10 Apr, 2020

نیا دور
حال ہی میں طاقت کے ایوانوں کی خوب خبر رکھنے والے معروف صحافی سہیل وڑائچ ملکی سیاست میں خاتون اول  بشریٰ بی بی کے کردار کےحوالے سے رقم طراز ہوئے ہیں۔ بی بی سی اردو کے لئے لکھے گئے اپنے کالم میں سہیل ورائچ نے حالیہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے حوالے سے اہم انکشافات کئے ہیں۔

جب سے وزیر اعظم عمران خان کی شادی بشریٰ بی بی سے ہوئی ہے عمران خان کو سیاست میں وہ اہداف حاصل ہوئے ہیں جس کے لئے وہ دھائیوں سے زور آزمائی کر رہے تھے۔ چونکہ ہمارے معاشرتی و ثقافتی نظریات میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک عورت جب شادی کر کے ایک گھر میں آتی ہے تو اپنی قسمت ساتھ لاتی ہے۔ اسی تناظر میں عمران خان کی کامیابیوں کا سہرا بشرا بی بی کے سر باندھا جاتا ہے۔ تاہم طاقت کے ایوانوں کے مکینوں کی باتیں اتنی سادہ اور معاملات اتنے سیدھے نہیں ہوتے جتنا کہ دکھائی دیتے ہیں۔

اور شاید یہ بات بشریٰ بی بی اور عمران خان کے حوالے سے بھی صادق آتی ہے۔ بشریٰ بی بی کی عمران خان سے شادی ہمارے معاشرے کے مروجہ کئی اصولوں کو روندتے ہوئے پراسرار انداز میں ہوئی۔ لیکن اس کے بعد سے وزیر اعظم عمران خان کے ارد گرد کھڑے ہوئے سیاسی برج جس طریقے سے تتر بتر ہوئے وہ اس سے زیادہ  دلچسپ اور پراسرار داستان ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے حلقہ احباب میں اس سیاسی قطع و برید کا موجب ایک ہی کردار ہے اور وہ ہے  پاکستان کی خاتون اول بشریٰ بی بی۔ 

اور یہی ہیں وہ شخصیت جس کے بارے میں  سہیل وڑائچ نے چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں۔ اپنے مخصوص نپے تلے انداز میں سہیل وڑائچ نے  کسی زمانے عمران خان کے ارد گرد موجود گروپ آف تھری کا ذکر کیا ہے جو کہ تحریک انصاف کی طاقتور ترین شخصیات سمجھی جاتی تھیں اور جنہیں پارٹی میں ہی ایک اور طاقتور شخصیت کی آشیرواد حاصل تھی۔

یہ شخصیات اور کوئی نہیں سب کے جانے پہچانے عون چوہدری، علیم خان اور پرویز خٹک ہیں جن کا اپنا اپنا حلقہ اثر تھا اور تینوں بقول سہیل وڑائچ جہانگیر ترین کی مٹھی میں تھے۔  کہتے ہیں کہ الیکشن سے پہلے تک بنی گالہ عون چودھری، پنجاب علیم خان اور پختونخواہ پرویز خٹک کے مکمل قبضے میں تھے اور تینوں جہانگیر ترین کی مُٹھی میں تھے مگر پھر سب کچھ بدلنا شروع ہو گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ 'اقتدار ملنے سے پہلے عمران کی بشریٰ وٹو سے شادی ہو گئی اور اقتدار ملتے ہی عون چودھری بنی گالہ سے چھٹی ہو گئی۔ علیم خان اپنے چارٹر جہاز پر عمران اور ان کی بیگم کو عمرے کے لیے لے گئے مگر وہاں کیا ہوا کہ علیم خان بیگم صاحبہ کی نظروں میں سما نہ سکے اور پھر رفتہ رفتہ وہ بھی دور ہوتے گئے.پرویز خٹک دوبارہ وزیر اعلیٰ پختونخواہ نہ بن سکے، وفاقی وزیر بن گئے مگر اب بھی ناپسندیدہ لوگوں میں شامل ہیں۔ اقتدار کے چند ہی ماہ میں جہانگیر ترین کا قریبی حلقہ اثر عمران سے دور ہوتا گیا یا دور کر دیا گیا۔'

کالم میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس دوران عمران کی نئی کچن کابینہ بن گئی پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ، فرسٹ لیڈی بشریٰ بی بی اور زلفی بخاری اس کابینہ کے اہم ترین رکن بن گئے۔ یوں جہانگیر ترین کا رہتا سہتا اثرو رسوخ اور بھی کم ہو گیا۔

یوں ایک بار پھر بشریٰ بیگم کا ملکی سیاست اور معاملات حکومت میں کردار سامنے آرہا ہے اور اگر جہانگیر ترین کی حالیہ سیاسی مات انکے مرہون منت ہے تو سیاست کے طالبعلموں کے لئے یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے۔

 

 
مزیدخبریں