بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مذکورہ جزیرے پر روزانہ کم سے کم دو درجن افراد کو اجتماعی قبروں میں دفنایا جاتا ہے اور یہ کام ہفتے کے پانچ دن جاری رہتا ہے۔ دیہاڑی پر لائے گئے متعدد مزدور حفاظتی لباس پہن کر قبروں کی کھدائی اور تابوت اجتماعی قبروں میں دفن کرتے ہیں۔
نیویارک میں کرونا وائرس کے سبب 7 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور شہر کے مردہ خانوں میں گنجائش کم ہو رہی ہے۔ عام طور پر نیویارک شہر سے باہر چھوٹے چھوٹے جزائر پر ان غریب لوگوں کو دفن کیا جاتا تھا جن کے لواحقین اپنے پیاروں کی شہری قبرستانوں میں تدفین کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔
کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین اگر دو ہفتوں میں لاش وصول نہیں کرتے تو مردے کو اس جزیرے پر دفنا دیا جاتا ہے۔
آئس لینڈ جزیرے پر قبروں کی کھدائی کیلئے عام طور پر جیل سے قیدیوں کو لایا جاتا ہے لیکن کرونا وائرس کے سبب یہ عمل روک دیا گیا ہے۔ شہر میں لاک ڈاؤن کے سبب لواحقین کو تجہیزوتکفین میں شامل ہونے کی اجازت نہیں اور یہ کام کنٹریکٹ پر رکھے گئے ملازمین کر رہے ہیں۔
کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کو پلاسٹک بیگز میں لپیٹ کر تابوت میں رکھا جاتا ہے اورتابوت پر مردے کا نام کندہ کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں اگر کوئی اس کو نکلوانا چاہے تو تلاش کرنے میں آسانی ہو۔
میئر نیویارک نے کہا ہے کہ فی الحال عارضی تدفین کی جارہی ہے اور وبا ختم ہونے کے بعد لواحقین سے رابطہ کیا جائے گا۔ ایک خندق میں 10 تابوت ترتیب سے رکھے جاتے ہیں تاکہ مستقبل میں نکالتے وقت آسانی ہو۔
نیویارک انتظامیہ نے کہا ہے کہ ہمارے پاس کرونا سے ہلاک افراد کو اس طرح دفنانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں امریکہ میں نئی پالیسی کے مطابق طبی ماہرین وائرس سے ہلاک ہونے والوں کو 14 دن تک طبی معائنے کیلئے رکھ سکتے ہیں تاہم اس کے بعد لازمی دفنانا ہوگا۔
اس سے قبل 1919 میں فلو اور 1980 میں ایڈز سے ہلاک ہونے والوں کو بھی اسی جزیرے پر دفنایا گیا تھا۔ ہارٹ آئس لینڈ میں اس سے قبل بھی دس لاکھ کے لگ بھگ مردوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا ہے۔