سپریم کورٹ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاقی حکومت کی جسٹس فائز عیسی کے خلاف ’کیوریٹو ریویو پٹیشن‘ کو واپس لینے کی درخواست پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ایف بی آر اور وفاقی حکومت کے توسط سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد بھی عدالت میں موجود تھے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو درخواست واپس لینے سے متعلق وفاقی حکومت کے مؤقف سے آگاہ کیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے چیمبر میں سماعت کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فیصلہ جلد ہی جاری کر دیا جائے گا۔ جبکہ چیف جسٹس کیخلاف ریفرنس کے حوالے سے کیے جانے والے سوال پر تبصرہ کنے سے گریز کیا۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ’کیوریٹو ریویو پٹیشن‘ دائر کی تھی۔ کیوریٹو اپیل صدر ڈاکٹر عارف علوی، سیکریٹری قانون کے توسط سے سابق وفاقی حکومت، سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم، سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر وغیرہ کے جانب سے دائر کی گئی تھی۔
30 مارچ کو وفاقی حکومت نے کیوریٹو ریویو واپس لینے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور درخواست دائر کی تھی۔
اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کمزور اور بے بنیاد وجوہات پر یہ ریفرنس دائر ہوا تھا۔حکومت اس ریفرنس کی پیروی نہیں کرے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ریفرنس کے نام پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں اور بدنام کیاگیا۔یہ ریفرنس نہیں تھا. آئین اور قانون کی راہ پر چلنے والے ایک منصف مزاج جج کے خلاف ایک منتقم مزاج شخص عمران نیازی کی انتقامی کارروائی تھی۔ یہ عدلیہ کی آزادی پر شب خون اور اسے تقسیم کرنے کی مذموم سازش تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ عمران نیازی نے صدر کے آئینی منصب کا اس مجرمانہ فعل کے لئے ناجائز استعمال کیا۔ صدر عدلیہ پر حملے کے جرم میں آلہ کار اور جھوٹ کے حصہ دار بنے۔
23 مئی 2019 کو پی ٹی آئی کی زیرقیادت وفاقی حکومت نے جسٹس عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف اپنے خاندان کے غیر ملکی اثاثے ظاہر نہ کرنے پر سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) سے رجوع کیا تھا۔
تاہم، جون 2020 میں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے 6-4 کی اکثریت کے ساتھ جسٹس عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس اور اس ریفرنس کی بنیاد پر شروع ہونے والی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا تھا۔ البتہ اس کے ساتھ بینچ کے اکثریتی اراکین نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے اثاثوں کی چھان بین کے لیے ایف بی آر کو حکم دے دیا۔
اس فیصلے کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیل دائر کر دی اور سپریم کورٹ نے جائیداد کی چھان بین کا اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے ایف بی آر کو تحقیقات سے روک دیا تھا۔
اس حوالے سے سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی اعتراف کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنا ہماری حکومت کی غلطی تھی۔