آن لائن سیمینار کے دوران جنوب ایشیائی ممالک کی حکومتوں کی جانب سے جیلوں میں کووڈ 19 کے پھیلاو کی روک تھام کے لیے کیے اقدامات پر بات چیت کی گئی۔ آن لائن مذاکرے کے دوران شرکا نے حکومتی اقدامات کی خامیوں پر بھی روشی ڈالی۔
اس موقع پر ملیکہ بخاری کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت ہر پاکستانی خواہ وہ قید میں ہو یا آزاد شہری کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہو، کی زندگی محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے جیلوں میں اصلاحات کے لیے دو اعلیٰ سطحی کمیٹیاں قائم کر دی ہیں۔ ہمیں قیدیوں سے متعلق اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ معمولی جرائم کے ملزمان کو قید کے علاوہ دوسری سزائیں دینے اور ضمانت فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیئں۔
دیگر شرکا نے جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدیوں، سہولیات کے فقدان، وسائل کی کمیابی اور قیدیوں کی صحت اور زندگی کے تحفظ کے لیے اقدامات کی کمی کی نشاندہی کی۔
دیویا ائیر کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا کی جیلوں میں تنگ کوٹھڑیوں میں اوپر تلے گنجائش سے زائد قیدی بند رکھے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر انوپ نے ان خیالات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ نظام قانون و انصاف میں وساَئل کی کمی کا مسئلہ حل کرنا ہو گا۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد قیدی کرونا وائرس میں مبتلا ہو چکے ہیں جن میں سے پانچ ہزار کا تعلق جنوب ایشیائی ممالک سے ہے۔
اس موقع پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر جسٹس پراجیکٹ پاکستان سارا بلال کہنا تھا کہ قیدخانوں میں کرونا کے متاثرین کی تعداد کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم نئے قیدیوں کی جیلوں میں آمد میں کمی لائیں۔
قیدخانے ہمیں بند قلعوں جیسے نظر آتے ہیں، مگر حقیقت میں اس وائرس کی زد میں قیدیوں کے ساتھ ساتھ جیل عملہ اور ان کے اہل خانہ بھی آئے ہیں۔ اس وبا سے یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ صحت عامہ قیدیوں کی صحت سے وابستہ ہے۔