ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ سفارتی سائفر کے مبینہ متن سے ثابت ہوگیا کہ چیئرمین تحریک انصاف اور سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی تھی۔
واشنگٹن میں ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیوملرنے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ میں اس دستاویز کے مصدقہ ہونے پر بات نہیں کر سکتا۔ اگر جن باتوں کے بارے میں رپورٹ کی گئی وہ 100 فیصد بھی درست تھیں تو وہ کسی بھی طرح سے یہ ظاہر نہیں کرتیں کہ امریکا نے یہ موقف اختیار کیا ہو کہ پاکستان میں قیادت کس رہنما کے پاس ہونی چاہیے۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ امریکا نے پاکستان کے ساتھ نجی اور سرکاری سطح پر سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے روس کی یوکرین پر چڑھائی کے دن ماسکو کا دورہ کرنے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا لیکن اس وقت امریکا میں تعینات پاکستان کے سابق سفیرکہہ چکے کہ یہ الزامات درست نہیں، الزامات جھوٹے ہیں ۔پاکستانی سفارتکاروں کیساتھ ہونے والی نجی گفتگو سے متعلق بات نہیں کرسکتا۔
میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ اس مراسلے میں موجود باتوں کو اگر سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے پالیسی کے حوالے سے انتخاب پر اپنے خدشے کا اظہار کر رہی ہے اور نہ کہ وہ اس بارے میں اپنی ترجیح بیان کر رہی ہے کہ پاکستان کا لیڈر کسے ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سائفر کی بنیاد بننے والی پاکستانی سفیر سے امریکی وزارتِ خارجہ کے افسر کی گفتگو میں امریکی اہلکار کی باتوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
انٹرسیپٹ نامی امریکی خبر رساں ادارےکی جانب سے مارچ 2022 میں امریکا میں پاکستانی سفیر کی جانب سے بھیجے گئے سائفر کی تحریر کے بارے میں ایک خبر شائع کی گئی جس میں اس سفارتی مراسلے کا مبینہ متن شامل ہے جسے سابق سفیر اسد مجید خان نے امریکی معاون وزیر خارجہ برائے وسط اور جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو سے ہونے والی گفتگو کے بعد تحریر کیا تھا۔
واضح رہے کہ عمران خان نے 2022 میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ سائفر میں امریکی معاون وزیر برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو اور پاکستانی سفیر اسد مجید کے درمیان ملاقات کی تفصیلات موجود ہیں اور ڈونلڈ لو نے سفیر کو متنبہ کیا تھا کہ اگر عمران خان اقتدار میں رہے تو اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔