بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق وفاقی امریکی کمیشن نے بھارت کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کا شہریت کے حوالے سے ترمیمی بل "غلط سمت میں خطرناک موڑ" ہے۔ امریکی کمیشن نے بل کی بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کی صورت میں وزیر داخلہ امیت شاہ کے خلاف امریکی پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں لوک سبھا میں تارکین وطن کو بھارت کی شہریت دینے کا متنازع بل پیش کیا گیا ہے، اس قانون کے تحت مسلمانوں کے علاوہ 6 مذاہب کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
اس بل کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں سمیت دیگر اقلیتوں کو بھارت کی شہریت دینے کی تجویز ہے جبکہ مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔
اے ایف پی کے مطابق آدھی رات کے بعد بھارت کے ایوان زیریں میں بل منظور ہو جس کے حق میں 311 ووٹ اور مخالفت میں 80 ووٹ ڈالے گئے۔
خیال رہے کہ اس بل کو ایوان بالا (سینیٹ) سے منظور ہونا ہے جہاں حکمران جماعت کی اکثریت نہیں ہے۔ کسی بھی بل کو قانون سازی لیے بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی توثیق ضروری ہوتی ہے۔
اس ضمن میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بل لوک سبھا سے منظور ہونے پر ٹوئٹ میں کہا کہ شہریت سے متعلق بل، بھارت کی صدیوں پرانی خواہش کا امتزاج ہے، جو انسانیت پسندی کا جزو ہے۔
مسلم تنظیموں، انسانی حقوق گروپوں اور دیگر لوگوں کے نزدیک یہ بل نریندر مودی کی جانب سے بھارت کے 20 کروڑ مسلمان کو پسماندہ کرنے کا حصہ ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ہم لوک سبھا میں متنازع شہریت سے متعلق قانون سازی کی شدید مذمت کرتے ہیں جس میں انسانی حقوق کے تمام قوانین اور پاکستان کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ توسیع پسندی دراصل آر ایس ایس کے 'ہندو راشٹر' ڈیزائن کا ایک حصہ ہے جس کو فاشسٹ مودی سرکار نے پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھی پیر کو جاری کردہ اپنے بیان میں بھارتی لوک سبھا سے منظور ہونے والے متنازع بل پر تشویش کا اظہار کیا۔ کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر شہریت ترمیمی بل بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور ہوتا ہے تو امریکی حکومت کو وزیر داخلہ امیت شاہ اور دیگر اہم قیادت کے خلاف پابندیوں پر غور کرنا چاہیے۔
پیر کے روز ہی بھارتی اور بین الاقوامی اداروں کے تقریباً 100 سائنسدانوں اور اسکالرز نے بھی ایک مشترکہ خط جاری کیا جس میں اس قانون سازی کے عمل پر مایوسی کا اظہار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی آئین میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو برابر کا درجہ دیا گیا ہے۔ تاہم مودی حکومت کے مجوزہ بل کی وجہ سے بنیاد پرستی تاریخ کا حصہ بن جائے گی اور یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متضاد ہوگا۔ خط میں کہا گیا کہ بل سے انتہائی ہوشیاری سے مسلمانوں کو نکالنے سے بھارت کی اجتماعیت پر گہرا داغ لگے گا۔
یاد رہے کہ مودی حکومت نے اپنے گذشتہ دور میں بھی یہ متنازع قانون بنانے کی کوشش کی تھی، تاہم ایوان بالا (راجیا سبھا) میں یہ بل منظور نہیں ہو سکا تھا جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی اتحادی جماعتوں کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔
بھارت کا شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟
شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔
اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔ اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔