امریکا، اسرائیل خلائی مخلوق سے رابطے میں ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کو بتانا چاہتے تھے: سابق اسرائیلی اسپیس سیکیورٹی سربراہ

06:49 PM, 10 Dec, 2020

نیا دور
اسرائیلی وزرات دفاع کی اسپیس سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے سابق سربراہ ڈاکٹر حائم اشاد نے خلائی مخلوق کی موجودگی کا دعویٰ کیا ہے۔

87 سالہ ڈاکٹر حائم اشاد تقریباً 30 سال تک اس ادارے کے سربراہ رہے ہیں اور انہیں اسی خدمات کے باعث 3 ایوارڈز بھی دیے گئے ہیں جبکہ اس وقت وہ پروفیسر ہیں ۔

 حائم اشاد نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل اور امریکا کئی سال سے کہکشانی فیڈریشن سے تعلق رکھنے والی خلائی مخلوق سے رابطے میں ہیں، خلائی مخلوق کے ساتھ تعاون میں مریخ پر خفیہ اڈہ بنانا بھی شامل ہے.


ان کا دعویٰ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کو خلائی مخلوق کی موجودگی سے آگاہ کرنے والے تھے لیکن انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا، ٹرمپ کو ایسا کرنے سے کہکشانی فیڈریشن نے روکا تاکہ دنیا میں ہسٹیریا (ہیجان) نہ پھیلے۔


حائم اشاد کا دعویٰ ہے کہ خلائی مخلوق اب تک انتظار کررہے تھے کہ انسان مزید ارتقائی مراحل طے کرکے ایک ایسے مرحلے تک پہنچ جائے جب وہ خلاء اور خلائی جہازوں کو سمجھ سکے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خلائی مخلوقوں نے ان سے کہا کہ ابھی یہ بات عام نہ کریں انسانیت اس کیلئے تیار نہیں۔


انہوں نے کہا کہ خلائی مخلوق بھی انسانوں اور کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیے اتنی ہی بے قرار ہے جتنا انسان ہیں۔


حائم اشاد کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا اور خلائی مخلوقوں کے درمیان باہمی تعاون کے معاہدے بھی ہوچکے ہیں جن میں مریخ میں زیر زمین بیس کا قیام بھی شامل ہیں جہاں امریکی خلاء باز اور خلائی مخلوق کے نمائندے موجود ہیں۔


اسرائیلی اسپیس سیکیورٹی کے سابق چیف کے دعوے میں کتنی حقیقت ہے وہ الگ بحث ہے تاہم جون 2018 میں سائنسدانوں نے مریخ پر زندگی اور ایک اجنبی مخلوق کی موجودگی کے بارے میں خبریں سامنے آئیں تھیں۔


سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ سرخ سیارے یعنی مریخ پر صرف زندگی کے آثار ہی نہیں ملے بلکہ وہاں ایک عجیب الخلقت مخلوق کی زندگی کے ثبوت ۔

اس حوالے سے وائٹ ہاؤس اور اسرائیلی حکام کا کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے جبکہ پینٹاگون کے ترجمان نے تبصرے سے انکار کردیا ہے۔


ادھر امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ اسے اب تک خلائی مخلوق کی موجودگی کے ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں اور وہ اس سلسلے میں اپنی تحقیق کا دائرہ وسیع کرتا جارہا ہے۔

مزیدخبریں