تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایسے گراؤنڈز موجود ہیں جو رانا شمیم کا حلف نامہ غلط دکھاتے ہیں، تاہم عدالت انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے رانا شمیم کو آخری موقع دیتی ہے۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ رانا شمیم کے بیان حلفی میں ایک ایسے جج کا نام آیا جو بیرون ملک تعطیلات پر تھے جبکہ رانا شمیم نے 15 جولائی 2018ء کی گفتگو کا حوالہ دیا۔
عدالت نے کہا کہ ان کی تین سالوں میں رانا شمیم کی خاموشی ان کی ساکھ پر سنجیدہ سوال اٹھا رہی ہے۔ بادی النظر میں اس وقت حلف نامے کے پیچھے نیک نیتی نظر نہیں آتی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکمنامے میں کہا کہ رانا شمیم نے جواب میں واضح کہا کہ انہوں نے حلف نامہ اخبار کو نہیں دیا۔ انھوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بیان حلفی نوٹری پبلک لندن سے لیک ہوا۔ تاہم اگر ایسا ہوا تو اخبار اور نوٹری پبلک لندن پر سنگین اثرات پڑیں گے۔ اس لئے اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ رانا شمیم اب اصل بیان حلفی پیش کریں۔
خیال رہے کہ 7 دسمبر کو رانا شمیم نے توہین عدالت نوٹس پر تحریری جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروا دیا تھا۔ رانا شمیم نے تحریری جواب میں لکھا کہ عدلیہ کی توہین کا ارادہ ہوتا تو میں اپنا بیان حلفی پاکستان میں ریکارڈ کراتا اور میڈیا کو جاری کرتا۔
رانا شمیم نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ لندن میں ریکارڈ حلف نامہ سربمہر لفافے میں پوتے کو دے کر واضح ہدایت کی کہ اسے کھولا اور پبلک کیا نہ جائے۔
تحریری جواب میں رانا شمیم نے کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ رپورٹر کو بیان حلفی کس نے جاری کیا اور نوٹری پبلک لندن حلف نامے کی کاپی ریکارڈ کیلئے اپنے پاس بھی رکھتا ہے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے منگل کو حکم دیا تھا کہ رانا شمیم 13 دسمبر تک اپنا اصل حلف نامہ عدالت میں جمع کرائیں، ورنہ ان پر فرد جرم عائد کردی جائے گی۔ عدالت نے رانا شمیم کو بیان حلفی لینے خود لندن جانے دینے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔