ہمارے قائدین کے ذاتی مفادات ،باہمی اختلافات ، تعصبات اور معاملات نے مفاہمت جیسے لفظ کو بھی بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔ ہماری قومی سیاست میں ایک دوسرے کو این آر او کے طعنے دئے جاتے ہیں جیسے کہ این آر او کوئی گالی ہو حالانکہ مفاہمت میں ہی امن اور بہتری ہے ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مفاہمت کی نیت اور مقصد نیک ہو ۔
پہلی دفعہ 2007 میں پرویز مشرف صاحب کے دور میں اس وقت کے حالات اور ضروریات کے پیش نظر این آر او عمل میں لایا گیا جس کے مثبت نتائج بھی ملے اور اب ایک بار پھر سے ملکی حالات کے پیش نظر مفاہمتی عمل وقت کی ضرورت بن چکا ہے ۔
جمہوری سیاسی نظام حکومت کےاندر شعور اور اخلاقیات کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے اور کوئی قوم جتنی باشعور اور اعلیٰ اخلاقیات کی مالک ہوتی ہے اتنا ہی اس ملک کے اندر یہ جمہوری سیاسی نظام مستحکم ہوتا ہے ۔ اور مستحکم سیاسی نظام حکومت کے بغیر ترقی کا خواب پورا ہونا ممکن نہیں ۔
وہی ملک ترقی کرتے ہیں جن کے عوام عملی طور پر سیاست اور ترقی کے عمل میں حصہ لیتے ہوں اور حکومت کے ترقیاتی کاموں میں ساتھ دیتے ہوں۔
ہمارے ماضی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ جمہوری سیاسی نظام سے مکمل طور پر مستفید ہوسکیں وگرنہ 74 سالوں میں اتنے زیادہ وسائل رکھنے والا ملک ترقی میں کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہوتا ۔
اب ہمارے سیاسی ماحول میں اختلافات اور تعصبات اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ قومی مفاہمت کے بغیر سیاسی معاملات کو بہتری کی طرف لے کر جانا مشکل ہی نہیں ناممکن بن چکا ہے ۔ اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ مفاہمتی سیاست کے بغیر ہی بہتری لانے میں کامیاب ہوجائے گا تو وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔ کوئی جتنا بھی عوامی مینڈٹ لے کر آجائے گا یہ سیاسی آنکھ مچولی کا کھیل اس وقت تک ترقی کے پہیے کو نہیں چلنے دے گا جب تک ہمارا جمہوری سیاسی نظام پختہ نہیں ہوجاتا ۔
موجودہ حکومت بھی سوا 3سالوں میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حکومتی معاملات میں بہتری لانے کی پوری کوشش کرچکی ہے مگر حالات دن بدن پہلے سے زیادہ بگڑتے جارہے ہیں ۔ اوراب تحریک انصاف کی حکومت اگر ملک و قوم کے لئے مخلص ہے تو ضرور چاہتی ہوگی کہ کوئی ایسی صورتحال جس سے معاملات بہتر ہونے کی راہ ہموار ہو ۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور پریشان کن بات یہ ہے کہ اس کے کہیں رکنے کے آثار بھی نظر نہیں آرہے۔ لہذا مفاہمت کے لئے اب ماحول کے سازگار ہونے کا بہترین موقع ہے ۔
عمراں خاں صاحب کو بھی ماضی کے جھروکوں میں سے حوالہ جات تلاش کرنے چاہیں۔ انکی کامیابیوں میں اس وقت کی حکومتوں کا بھی ہاتھ ہے اور وہ ان دونوں خاندانوں سے دوستانہ تعلقات کا اشارہ بھی دے چکے ہیں ۔ ان کی قسمت اور صلاحیتوں سے بھی کوئی انکاری نہیں اور عوام میں ان کی عزت و احترام مفاہمت کے عمل کا حصہ بننے سے کم نہیں ہوگی بلکہ اور بڑھےگی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نوازشریف پاکستان کی مقبول ترین شیخصیت ہیں ، وہ تین دفعہ پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں ۔ پاکستان کی ترقی میں انکا بہت بڑا کردار ہے ۔ امن کی بات ہو ، پاکستان کو اٹامک پاور بنانے کی بات ہو ، انرجی کرائیسس کے ختم کرنے کی بات ہو یا معاشی ترقی کی بات ہو تو ان کو کریڈٹ دینا پڑے گا ۔ ان کو سیاست سے باہر کرنے کی بھی تمام تر کوششیں ناکام ہوچکی ہیں اور وہ اب بھی عوام کے دلوں میں رہتے ہیں لہذا اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ وہ ملک و قوم کے لئے مخلص اور بلا صلاحیت مقبول ترین لیڈر ہیں ۔
اب ان سے اختلاف اور تعصب رکھنے والے طاقتور حلقوں کو بھی اس بات کا اندازہ ہوجانا چہیے کہ ان کے ساتھ اس طرح کا رویہ ملک قوم کے حق میں بہتر نہیں اور ان کا جائز مقام ان کو ملنا ان کا حق ہے اور ان کی مخلصانہ سوچوں ، تجربات اور صلاحیتوں سے ، ملک و قوم کی بہتری میں ، فائدہ حاصل کرنے کے لئے انکو کسی بھی قسم کی دخل اندازی کے بغیر موقع دینا ہوگا۔
نواز شریف صاحب کو بھی چاہیے کہ ملک و قوم کی بہتری کی خاطر تمام تر رنجشوں کو بھلا کر اگر کوئی مفاہمتی سیاست کا موقعہ سامنے آتا ہے تواس پر آمادگی کا اظہار کریں اور کسی مناسب صورتحال کے لئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ مزید خرابی کی طرف جاتے ہوئے حالات پر قابو پایا جاسکے ایسا نہ ہو کہ حالات ہاتھ سے نکل جائیں اور ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہوجائے ۔
انکو اس بات کا بھی احساس ہوجانا چاہیے کہ وہ عوام کے اندر جتنی بھی مقبولیت پا لیں قریب تریں وقت میں حالات کا مکمل طور پر ان کے حق میں انکی خواہشات کے مطابق حصول ممکن نظر نہیں آتا۔ انکو زمینی حقائق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جمہوری سیاسی نظام میں بہتری لانے کے لئے ہم ایک منتقلی کے عمل سے گزر رہے ہیں اور اس میں بہتری آنے میں وقت لگتا ہے اور اس نظام کو جیسے بھی ہے جاری رہنا چاہیے۔ جیسے انکی کوششوں سے پچھلی دو حکومتوں نے اپنا وقت پورا کیا ہے اسی طرح یہ عمل جاری رہنا چاہیے ۔ ترقی کا پہیہ بھی نہیں رکنا چاہیے اور سیاسی نظام میں بہتری کا عمل بھی ساتھ ساتھ چلتا رہے ۔
جس جمہوری انقلاب کی وہ امید لگائے بیٹھے ہیں اس کے لئے ابھی قوم تیار نہیں ہوئی وگرنہ جب وزارت عظمیٰ سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے اسلام آباد سے براستہ سڑک لاہور جانے کا سفر شروع کیا تھا تو اس وقت قوم کے پاس موقع تھا کہ وہ پر امن طور پر اپنی جمہوری طاقت کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی انقلاب کی راہ ہموار کر دیتے۔ لہذا ان کو وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مفاہمت کی کوششوں کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے اور عملی طور پر ترقی کے عمل کا حصہ بن جانا چاہیے ۔
مولانا فضل الرحمن اور دوسری حزب اختلاف کی جماعتیں بھی اپنی پوری کوشش لگا چکی ہیں اور ان کو اس بات کا بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس سیاسی آنکھ مچولی سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔
اگر ہمارے سیاسی قائدین واقعی آئین کی پاسداری اور سول بالادستی چاہتے ہیں تو اس کا حصول مفاہمتی حکمت عملی میں ہی پنہاں ہے۔ ان سب کو اس پر یقین اور پوری کی پوری توانائی کے ساتھ عمل پیرا ہونا ہوگا اور اپنے اندر اس بات کا احساس ذمہ داری پیدا کرنا ہوگا کہ ان کے آپس میں جتنے بھی اختلافات ہوں وہ ان کو کبھی بھی سول بالادستی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیںگے۔
ملکی بہتری کے لئے حکومتی جماعتوں اور حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کو وقت کی ضرورت اور نزاکت کو سمجھتے ہوئے تمام تر تعصبات ، اختلافات اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر کوئی ایسا لائحہ عمل بنانا ہوگا کہ ہم اپنے نظام حکومت کو مزید نقصانات سے بچا سکیں اور ملکی ترقی کا پہیہ مثبت سمت میں چلنا شروع ہوجائے۔
کوئی بھی یہ نہ سمجھے کہ میں ٹھیک ہوں اور دوسرا غلط ہے۔ سب میں خامیاں بھی ہوتی ہیں اور خوبیاں بھی لہذا ہمیں خامیوں کو نظر انداز کرکے ، ملکی بہتری میں، خوبیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری قومی صلاحیتیں غلط استعمال ہونے کی بجائے صحیح سمت میں استعمال ہوں اور ملکی ترقی میں ان سے فائدہ حاصل ہو ۔
اور اس مفاہمتی عمل کے بعد کسی کو بھی پیچھے نہیں چھوڑنا چاہیے اور تمام کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے تاکہ تمام تر باہمی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کی ترقی کو چلایا نہیں بلکہ گھمایا جاسکے تاکہ قوم و ملک کا جو وقت ضائع ہو چکا ہے اس کی بھی تلافی ہو سکے۔