آج بروز ہفتہ لاہور میں انسداد منشیات کی خصوصی عدالت میں منشیات برآمدگی کے مقدمے میں رانا ثنااللہ کی بریت کی درخواست کی سماعت ہوئی جس میں رانا ثنا اللہ سمیت دیگر ملزمان پیش ہوئے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے بریت کی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر درج کیا گیا جس کی قانونی حیثیت نہیں۔ استغاثہ کے پاس ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ کیس کمزور ہے جس میں سزا کا امکان بھی نہیں ہے۔ سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج اور اس مقدمے کے حوالے سے سابق وزیر فواد چوہدری کے بیان کے بعد کیس میں کچھ باقی نہیں رہا۔ عدالت بری کرنے کا حکم دے۔
عدالت میں انسداد منشیات فورس کی جانب سے مقدمے کے دو گواہان پیش کیے گئے۔ گواہوں نے بیان دیا کہ ان کے سامنے رانا ثنا اللہ سے کسی قسم کی منشیات برآمد نہیں کی گئیں۔ ایک گواہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر امتیاز چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کا نام استعمال کیا گیا جبکہ دوسرے گواہ انسپکٹر احسان اعظم نے کہا کہ وہ موقع پر موجود نہیں تھے۔ دونوں گواہان نے بیان حلفی عدالت میں جمع کرادیے۔
عدالت نے مقدمے کے مدعی اے این ایف کے سرکاری وکلا سے کہا کہ یہ کیس تو ان بیانات سے ختم ہو گیا ہے۔ اس طرح عدالت نے رانا ثناءاللہ کی بریت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں اور تمام شریک ملزمان کو بری کر دیا۔
یاد رہے کہ عمران خان حکومت میں اینٹی نارکوٹکس کے وزیر مملکت شہر یار آفریدی نے پریس کانفرنس میں کھلے عام دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس اس حوالے سے ویڈیوز اور دیگر ٹھوس ثبوت موجود ہیں جو عدالت میں پیش کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کا کیس تحریک انصاف دورِ حکومت میں یکم جولائی 2019ء کو دائر کیا گیا تھا۔ ن لیگی رہنما کو یکم جولائی 2019 کو فیصل آباد سے لاہور سفر کے دوران راوی ٹول پلازہ کے قریب 15 کلو ہیروئین اسمگل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور گرفتاری کے اگلے روز اِنہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ رانا ثنااللّٰہ کی 24 دسمبر 2019ء کو لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت منظور ہوئی تھی۔