اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے لیے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اسدالدین اویسی نے کہا کہ پاکستان اپنے کام سے کام رکھے۔ ہم پاکستان کے لوگوں سے کہیں گے کہ پاکستان ہماری طرف مت دیکھو۔ تمہارے پاس بلوچوں کے مسئلوں کے علاوہ اور پتہ نہیں کیا کیا جھگڑے ہیں، تم اس کو دیکھو، یہ دیس میرا ہے، تمہارا نہیں ہے، یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے۔ آپ اس میں اپنی ٹانگ یا ناک مت اڑاؤ، وہ زخمی ہو جائیں گی۔
اسد الدین اویسی نے کہا کہ پاکستانی آئین کے مطابق کوئی غیر مسلم ان کا وزیراعظم یا صدر نہیں بن سکتا جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے پاکستانی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا جو ملک ملالہ کی حفاظت نہیں کر سکتا۔ ملالہ کو وہیں گولی مار دی گئی۔ وہ لڑکیوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہے اور اب بھارت کو تعلیم دے رہے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی پر حملہ پاکستان میں ہوا تو وہ تعلیم کے لیے برطانیہ چلی گئیں، ہماری بچیاں یہیں رہیں گی، عزت سے رہیں گی، پڑھیں گی اور نیک اور قابل بنیں گی۔
اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے خطاب کرتے ہوئے کرناٹک میں جاری حجاب تنازع کا معاملہ بھی اٹھایا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یوپی کی خواتین سے کہا کہ وہ حجاب اور برقع پہن کر ووٹ ڈالنے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ حجاب اور برقع پہننا تو ہمارا حق ہے ، آئین میں ہمارا بنیادی حق ہے ، میں کیا پہنتا ہوں ، کیا کھاتا ہوں ، کسی کو جھانکنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’میری بیٹی کیا پہنے گی ، میری ماں کیا پہنے گی ، میری بہن کیا پہنے گی ، میری خالہ کیا پہنے گی ، ارے تو اپنے گھر کی فکر کر ، میرے پیچھے کیوں پڑا ہے، کیا ہم پوچھ کر پہنیں کے کیا پہننا ہے‘ ۔
اسد الدین اویسی نے میڈیا پر بھی طنز کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ’میڈیا بولتی ہے تم خواہ مخواہ اس کو اترپردیش میں لے آئے ، داڑھی میری ، ٹوپی میری ، برقع میرا، تم کو کیا کرنا ہے اس سے ۔‘
خیال رہے کہ بھارتی ریاست کرناٹک میں حکومت نے مسلمان طالبات پر تعلیمی اداروں میں حجاب کرنے پر پابندی لگا دی ہے جس کے خلاف مسلمان طالبات سمیت دیگر نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
کرناٹک کی حکومت نے فیصلے کے خلاف شدید ردِ عمل سامنے آنے کے بعد ریاست میں تمام تعلیمی ادارے تین روز کے لیے بند کر دیے ہیں۔
دوسری جانب ممبئی میں کرناٹک حکومت کے فیصلے کے خلاف دستخطی مہم شروع کی گئی جس میں ہزاروں مسلمان طالبات اور خواتین نے شرکت کی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔