اس مشتعل ہجوم میں لگ بھگ 500 افراد شامل تھے۔ ان میں سے کئی نے اپنے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔ تاہم پولیس نے بروقت مداخلت کرتے ہوئے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں صوابی کے مختلف علاقوں سے علمائے کرام نے آ کر معاملے کو سلجھاتے ہوئے مشتعل ہجوم کو واپس لوٹنے کی درخواست کی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ جیسے ہی انہیں مشتعل ہجوم کی اطلاع ملی انہوں نے اس افسر کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا لیکن اس دوران ایک اہلکار بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں لگ گیا۔ لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہی وہ افسر ہے جس کو وہ ڈھونڈ رہے تھے۔ انہوں نے نعرے لگاتے ہوئے اسے بری طرح تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
پولیس اہلکار اس مظلوم شہری کو بچانے آگے بڑھے تو انھیں بھی زدوکوب کیا گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایک پولیس افسر کے ہاتھ کی انگلی بھی ٹوٹ گئی لیکن انہوں نے مشتعل ہجوم کے چنگل سے اس لڑکے کو بچا لیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس اہلکاروں نے چیخ چیخ کر لوگوں کی منتیں کیں اور بتایا کہ جس شخص کو وہ ڈھونڈ رہے ہیں وہ یہ نہیں ہے۔
پولیس کی ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تحصیل ریونیو افسر بازار سے جرمانے اور کرائے وصول کر رہا تھا کہ انجمن تاجران کے سابقہ صدر نے اس کے خلاف عوام کو بھڑکانا شروع کر دیا۔
توہین رسالت کا الزام والے افسر کو پولیس کے سینئر افسروں نے علمائے کے سامنے پیش کیا، جہاں اس نے کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کی تصدیق کروائی۔
متعلقہ افسر کے دفتر کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک محنتی اور ایماندار افسر ہیں۔ انھیں ہمیشہ ایک پرہیزگار اور دین پر عمل کرتے دیکھا ہے۔ انہوں نے کئی عمرے بھی ادا کئے ہیں۔