طیبہ تشدد کیس: سپریم کورٹ نے مجرم خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کی سزاؤں میں کمی کر دی

09:28 AM, 10 Jan, 2020

نیا دور
سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس کے مجرم راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کی سزاؤں میں 3 سال تک توسیع کالعدم قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دی گئی ایک سال قید کی سزا بحال کر دی۔

واضح رہے کہ 27 دسمبر 2016 کو اسلام آباد میں ایک کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ کو اس وقت کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور ان کی اہلیہ کی جانب سے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کا واقعہ منظر عام پر آیا تھا۔

گذشتہ برس مئی میں عدالت عظمیٰ نے دونوں ملزمان کی جانب سے دائر اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے آج سنایا گیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے راجا خرم علی اور ان کی اہلیہ کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔

اپریل 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے 10 سالہ طیبہ پر تشدد کرنے کے دونوں ملزمان کے خلاف ایک ایک سال قید اور 50، 50 ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

بعد ازاں جون 2018 میں ان دونوں مجرمان نے سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جہاں ان کی سزا کو ایک سال سے بڑھا کر 3 سال اور جرمانہ 50 ہزار کے بجائے 5 لاکھ روپے کر دیا گیا تھا۔

تاہم آج سنائے گئے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے تین سال قید کی سزا کو ختم کرتے ہوئے ایک سال قید کی سزا بحال کر دی۔

جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس یحیٰ آفریدی کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ مجرمان کو دی گئی ابتدائی سزا برقرار رہے گی۔

مذکورہ فیصلے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 328 کے تحت مجرمان کی سزا برقرر رکھتے ہوئے ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کی جانب سے 11 جون 2018 کو ایک سال کی سزا بڑھا کر 3 سال کرنے کے فیصلے کو کالعدم کردیا گیا۔

یاد رہے کہ 27 دسمبر 2016 کو اسلام آباد کے ایک گھر میں کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کا واقعہ منظر عام پر آیا تھا۔

بچی کے بیان کے مطابق چائے والی ڈوئی سے مار کر ہاتھ جلایا گیا، پھر پانی کی ٹنکی سے باندھ دیا گیا جبکہ میڈیکل بورڈ کے مطابق بچی کے 22 زخم پرانے اور تین زخم نئے تھے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے میڈیکو لیگل آفیسر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ بچی کی دائیں آنکھ کے گرد سوجن اور نیل موجود تھے، جسم پر سوجن اور جلائے جانے کے نشانات جبکہ چہرے کے دائیں طرف اور بائیں کان کے اوپر بھی چوٹ کے نشان تھے اور بچی کے جسم پر 22 زخم پرانے اور تین زخم نئے تھے۔

بچی نےبتایا تھا کہ اسے گھر میں اکثر اوقات مارپیٹ کا نشانہ بنایا جاتا تھا، جبکہ واقعہ منظر عام پر آنے سے کچھ روز قبل مالکن نے اس کا ہاتھ جلتے ہوئے چولہے میں ڈال دیا تھا اور جھاڑو گم ہوجانے پر اسے مارا پیٹا بھی گیا۔

ملازمہ کا کہنا تھا کہ اس کے مالکان اکثر اوقات اسے رات بھر اسٹور روم میں بند کر دیتے اور بھوکا رکھنے کے ساتھ مار پیٹ بھی کرتے تھے۔

پولیس نے 29 دسمبر کو جج راجہ خرم اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا اور دونوں افراد کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مزیدخبریں