اس فلم میں ملالہ یوسفزئی کے تعلیم کے حصول اوران کے خاندان کی راہ میں آنے والی مشکلات کو دکھایا گیا ہے۔ ٹریلرمیں طالبان کی جانب سے سوات کی خواتین پرتعلیم کے حصول پر پابندی عائد کرنے کے بعد ملالہ اوران کے خاندان کی جدوجہد کو دکھایا گیا ہے۔
فلمسازوں کے مطابق فلم ’’گل مکئی‘‘ ملالہ کے بہادرسفر اور جدوجہد کا محاسبہ کرتی ہے ۔ ہم نے اس فلم کے ذریعے ملالہ کو ان کی جدوجہد کے لیے خراج تحسین پیش کیا ہے۔
واضح رہے کہ فلم’’گل مکئی‘‘ میں ملالہ یوسفزئی کا کردار بھارتی اداکارہ ریم شیخ ادا کررہی ہیں جب کہ ملالہ کی والدہ کا کردار اداکارہ دیویا دتہ، والد کا کردار اتول کلکرنی اداکررہے ہیں جب کہ دیگر کاسٹ میں مکیش رشی اور پنکج تریپاٹھی شامل ہیں۔ فلم کی ہدایت امجد خان دے رہے ہیں یہ فلم رواں ماہ 31 تاریخ کو ریلیز کی جائے گی۔
ملالہ یوسفزئی 12 جولائی سال 1997 کو پاکستان کی وادی سوات میں پیدا ہوئی تھیں۔ ملالہ بی بی سی اردو سروس کے لیے گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھا کرتی تھیں، جہاں ان کے آبائی علاقے میں کالعدم طالبان کا راج تھا، انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے دنیا تک اپنی آواز پہنچائی کہ وہ کیسے اس خوف کے سائے میں زندگی گزر رہی ہیں۔
ملالہ یوسفزئی کو اس وقت عالمی پہچان ملی جب 2012 میں سوات میں اسکول سے واپس آتے ہوئے ملالہ پر فائرنگ کی گئی تھی۔ ملالہ کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانے پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ بعد میں ملالہ کو بہترعلاج معالجے کیلئے برطانیہ منتقل کردیا گیا تھا جہاں کافی عرصے ان کا علاج جاری رہا۔ صحت یاب ہونے کے بعد ملالہ نے برطانیہ میں ہی اپنے تعلیمی سلسلے کو دوبارہ استوار کیا،جہاں وہ اب بھی زیر تعلیم ہیں۔
ملالہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں فلسفہ، سیاست، اور معاشیات کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ یہی مضامین آکسفورڈ سے پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اورچیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بھی پڑھے تھے۔
ملالہ 2014 میں بچوں کی تعلیم کے لیے مہم چلانے پربھارت کے سماجی کارکن کیلاش ستھیارتھی کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبیل امن انعام بھی حاصل کرچکی ہیں۔اس کے علاوہ انہیں ورلڈ چلڈرن پرائز ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے ملالہ کو اپنا سفیر برائے امن بھی مقرر کیا ہے۔خواتین کی تعلیم، حقوق نسواں اور انسانی حقوق کیلئے خدمات پرکئی عالمی اعزازات بھی اپنے نام کرچکی ہیں۔
اس کے علاوہ ملالہ ’’آئی ایم ملالہ‘‘ کے نام سے اپنے حالات زندگی پر ایک کتاب بھی لکھ چکی ہیں۔