وہاں برادرم تیمور شاہ، مدثر اقبال، طاہر شبیر اور جاوید غفاری بھی موجود تھے۔ ہم گھنٹوں ایک چائے خانے پر بیٹھ کر گپ لگاتے رہے۔ عاطف بول چال میں تیز تھا جبکہ خضر کچھ کم گو معلوم ہوا۔ عاطف کے ساتھ گپ شپ کچھ اس لئے بھی زیادہ بڑھی کہ اسکا تعلق ہزارہ ڈویژن سے تھا اور میرا بھی۔
مرید نے مجھے بتایا کہ" 2005 کے زلزلے میں عاطف کے گھر (جو بالا کوٹ میں واقع تھا)کا کوئی فرد نہیں بچا تھا۔ عاطف کراچی میں تھا وہ اس لئے وہ اکیلا اس آفت سے محفوظ رہا۔ عاطف بہت بہادر ہے اس نے بہت جلد اپنے آپ کو اس غم سے نکال کر زنگی کوسنبھالا دیااور اب کراچی میں اپنی بیوی کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے اس کے علاوہ عاطف ٹائروں کا کامیاب کاروبار کر رہا ہے۔ میں بھی اس کےساتھ شراکت دار ہوں"۔
بعد میں اطلاع ملتی رہی کہ کچھ اور دوست بھی ان کے ساتھ پارٹنرز ہو چکے ہیں۔ یہ میرے لئے اطمینان بخش تھا کہ میڈیا کے اس کٹھن وقت میں کچھ دوستوں نے اپنا کچن چلانے کے لئے کوئی تو متبادل انتظام کر لیا ہے۔
مجھے نہیں معلوم مرید عاطف اور خضر کی دوستی کو پیسے کی لالچ مات دے گئی یا کوئی اور تنازع تھا۔ ہماری بھابی زارا کے مطابق مرید کو عاطف نے جھانسہ دے کر شہید کیا۔ خضر بھی مرید کے ساتھ یار غار کی طرح وفاداری نبھاتے چل بسا مگر عاطف کو کس نے اندھا کر دیا تھا۔ اس نے یاروں کا یار کیوں چھین لیا۔
اب ظلم تو یہ کہ عاطف سے اسکا حساب بھی نہیں لیا جا سکتا۔ بس یار چلا گیا ۔ ملنسار چلا گیا۔ غم خوار چلا گیا۔ پیار چلا گیا۔ دلدار چلا گیا۔ جا او یار
" تیکو رب دیاں رکھاں"