ڈان نیوز سے حاصل معلومات کے مطابق آج 10 جولائی کو یہ بات سامنے آئی کہ 16 مارچ کو بنوں کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی۔ اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ حکومت کیس سے دستبردار ہونا چاہتی ہے جس کی سماعت سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ایبٹ آباد میں ہورہی ہے۔
مذکورہ درخواست ریاست کی جانب سے ضلع بنوں کے پبلک پراسیکیوٹر اور اے ٹی سی بنوں کے سینئر پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔
درخواست میں لکھا گیا تھا کہ صوبائی حکومت کی ہدایات کے مطابق ریاست/حکومت، موجودہ صورتحال کے تناظر میں اس کیس کی پروسیکیوشن سے دستبردار ہونا چاہتی ہے۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عدالت کے ایک عہدیدار نے یہ تصدیق بھی کی کہ درخواست دائر ہوچکی ہے۔ تاہم ابھی تک عدالت کی جانب سے درخواست کی سماعت کے لیے کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی۔
محسن داوڑ اور علی وزیر کے قانونی نمائندے عبداللطیف آفریدی جو سینئر وکیل بھی ہیں اور پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہیں انہوں نے بھی اس اقدام کی تصدیق کی لیکن کہا کہ ان کے موکلوں کو حکومت کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کی کاپی ابھی تک موصول نہیں ہوئی۔
خیال رہے کہ کیس سے دستبرداری کا اقدام پی ٹی ایم کی جانب سے حکومت کی مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے اعتماد سازی کے اقدامات کا سنجیدگی سے مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ گذشتہ ماہ ایک پریس کانفرنس میں پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے کہا تھا کہ حکومت اعتماد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے لازمی اقدامات اٹھائے اور یہ فریقین کے لیے ضروری ہے کہ مذاکرات شروع کرنے سے قبل اعتماد سازی کے اقدامات کیے جائیں۔
یاد رہے کہ 26 مئی 2019 کو شمالی وزیرستان کے علاقے بویا میں خڑکمر چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا تھا، جس کے بارے میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بتایا تھا کہ چیک پوسٹ پر ایک گروہ نے محسن جاوید داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 5 اہلکار زخمی ہوئے۔
آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق چیک پوسٹ میں موجود اہلکاروں پر براہ راست فائرنگ کی گئی جس پر اہلکاروں نے تحفظ کے لیے جواب دیا۔ پاک فوج کے مطابق چیک پوسٹ پر براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں 5 اہلکار زخمی ہوئے جبکہ جوابی کارروائی میں 3 افراد جان کی بازی ہار گئے اور 10 زخمی ہوئے۔