لڑکپن میں پہلی دفعہ جہانگیر ترین کا نام تب سنا جب ان کے برادر نسبتی سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے انہیں مشرف دور کے عام انتخابات میں روایتی فیوڈل سیاستدان کی طرح اپنی آبائی قومی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑانے کا اعلان کر دیا۔ کیونکہ اس وقت مخدوم احمد محمود ضلع ناظم رحیم یار خان تھے اور ممبر قومی اسمبلی بننے کے لئے بی اے کی شرط بھی گلے میں اٹکی ہوئی تھی۔ اسی حلقے سے کسی مقامی آدمی کی حمایت کی صورت میں خوف یہ تھا کہ کل کلاں وہی شخص انگریز کے وقت سے عطا کردہ اقتدار کے لئے خطرہ نہ بن جائے۔ جہانگیر ترین غیر مقامی تھے اور قریبی رشتہ دار بھی اس لئے ممبر قومی اسمبلی بننے کا قرعہ فال ان کے نام نکلا۔ پھر وہ بہت جلد وزیر پیداوار بھی بن گئے۔ وہ مخدوم خاندان کا کاروباری چہرہ تھے لہٰذا وزیر ہوتے ہوئے وہ یہ کام کماحقہ انجام دیتے رہے۔ تب ہی یہ خبر سنی کہ انہوں نے اپنے قریبی عزیز کی انڈسٹری کا پہلے قرضہ معاف کروایا اور بعد میں اسے خرید لیا۔
جب 2007 میں مشرف کا اقتدار لرز رہا تھا تو ساتھ ہی آٹے کا ملک میں شدید بحران پیدا ہو گیا۔ اس بحران سے بھی بطور وزیر پیداوار جہانگیر ترین کی کئی کہانیاں سامنے آئیں لیکن وہ صاف بچ نکلے۔ 2008 میں جہانگیر خان ترین کسی نشست پر کھڑے نہ ہو سکے کیونکہ نشستوں کے اصل مالک واپس آ چکے تھے۔ تین حلقوں سے کھڑے ہونے والے مخدوم احمد محمود بہرحال اکثر جلسوں میں یہ کہتے پائے جاتے کہ وہ رحیم یارخان کو جہانگیر ترین کے وژن کے مطابق ترقی دیں گے۔ ایسے ہر موقع پر جہانگیر ترین مخدوم احمد محمود کے ساتھ بڑے مضحکہ خیز انداز میں آن موجود ہوتے۔ بہت ہنسی آتی کہ ایک فیوڈل لارڈ ترقی کا کیا شاندار تصور پیش کر رہا ہے اور آخر جہانگیر ترین کا وژن کیا ہو سکتا ہے؟ یعنی گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟
خیر یہ ڈرامہ پوری الیکشن مہم میں چلتا رہا لیکن اس دوران جہانگیر ترین کو کافی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ سیاستدان کی بجائے ہمیشہ ایک کاروباری شخص محسوس ہوئے اور پھر وزارت پیداوار میں ان کے کارنامے ابھی ذہن میں تازہ تھے۔
ان انتخابات کے بعد گھریلو اور کاروباری معاملات پر جہانگیر ترین اور مخدوم احمد محمود کے راستے الگ ہو گئے اور رحیم یارخان جہانگیر ترین کے ’وژن‘ سے محروم ہی رہا۔ جہانگیر ترین کے پاس پیسہ موجود تھا، اقتدار کی سیاست کے ذریعے کاروبار بڑھانے کی انہیں لت پڑ چکی تھی لیکن ان کے پاس انتخابی حلقہ موجود نہ تھا۔ انہوں نے ن لیگ سمیت ہر جگہ ہاتھ پاؤں مارے لیکن ہر جگہ مخدوم احمد محمود سامنے آتے رہے۔ وہاں سے مایوس ہوکر وہ اپنے اصل آقاؤں کے پاس پہنچے۔ پی ٹی آئی میں شمولیت کا مشورہ ملا۔ وہ عمران خان سے ملتے ضرور رہے لیکن ایک کاروباری ذہن رکھنے کی وجہ سے پی ٹی آئی میں اس وقت تک شمولیت کا اعلان نہ کیا جب تک پی ٹی آئی نے مینار پاکستان پر ایک کامیاب جلسہ کر کے اپنی سیاسی حیثیت کو منوا نہ لیا۔
آزمودہ کھلاڑی پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے تھے تو ایسے میں جہانگیر ترین کے لئے اس پارٹی میں جگہ بنانا نسبتاً آسان تھا۔ حلقے کی سیاست سے وہ محروم تھے لیکن مشرف دور میں ان کی صنعت اور دولت نے دن دگنی رات چگنی ترقی کی۔ اس لئے ایک زمانہ شناس سیٹھ کی طرح وہ کم وقت میں صحیح جگہ پر پیسہ خرچ کر کے بڑے بڑے جغادری سیاستدانوں پر بازی لے گئے۔ پھر دھن دولت کا ایسا نظارہ ملا کہ سب کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہی عمران خان کو لینڈ کروزر کا تحفہ دے کر جہانگیر ترین نے شاہ محمود قریشی اور ان جیسے کئی اور سیاستدانوں کے جانشین بننے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہانگیر ترین اتنا خرچ نہیں کرتے تھے جتنا شور مچایا جاتا لیکن بہت جلد عمران خان انہی کی آنکھ سے دیکھنے لگے اور انہی کے کان سے سننے لگے۔ کاروباری آدمی ہونے کی وجہ سے وہ منیجمنٹ کے ماہر تھے اس لئے ایک دو مواقع پر اس مہارت کو دکھانے پر انہوں نے بہت داد سمیٹی۔ ان کا جہاز بھی منیجمنٹ کا حصہ ٹھہرا جس نے پی ٹی آئی کی الیکشن مہم کو مؤثر بنا دیا۔
جہانگیر ترین کا یہ دعویٰ قطعاً غلط ہے کہ 2013 میں عمران خان نے ان کے کہنے پر امیدوار نہیں لیے ورنہ ان انتخابات میں بھی نتائج مختلف ہو سکتے تھے۔ حق لگتی بات یہ ہے کہ اس وقت تک جہانگیر ترین کا سیاسی قد اتنا نہیں تھا کہ وہ اچھے امیدواروں کو پارٹی میں لا سکتے اور ویسے بھی یہ کام غیبی اشاروں کا محتاج ہے۔ ان کا تو اپنا کوئی محفوظ حلقہ موجود نہیں تھا تو وہ دوسروں کو کیسے پی ٹی آئی کے لئے راغب کر سکتے تھے۔ان کے سیاسی قد میں اضافہ تبھی ممکن ہوأ جب وہ عمران کے بہت قریب ہو گئے اور اسی وجہ سے پس پردہ طاقتوں کے ساتھ پیغام رسانی بھی ان کی ذمہ داری ٹھہری۔
2013 کے انتخابات میں ان کے اپنے آبائی شہر کے حلقے سے شکست نے انہیں دھچکا ضرور لگایا لیکن خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کی سربراہی میں پی ٹی آئی کی حکومت اور 2014 کے دھرنے نے انہیں نئی سیاسی بلندیوں سے روشناس کرایا۔ جہانگیر ترین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سیاست کو کاروبار سمجھ کے کرتے ہیں۔ اسی لئے دھرنے کے فوراً بعد جب انہیں بہاولپور میں 10 ہزار ایکڑ زمین پرانے مستاجرین سے زبردستی خالی کروا کے تحفے کے طور پر دی گئی تو انہوں نے اس کو صلے کے طور پر بخوشی قبول کیا۔
نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس کے وقت بھی جہانگیر ترین کی پھرتیاں دیکھنے کے قابل تھیں۔ نواز شریف نے تو جانا تھا کیونکہ فیصلہ ہو چکا تھا لیکن اس جھکڑ کی زد میں عمران خان اور جہانگیر ترین بھی آ گئے۔ چونکہ عمران کو ہر صورت بچانا مقصود تھا اس لئے ان کی رسیدیں بیس، بائیس سال بعد بھی کبھی جوتے کے ڈبے اور کبھی الماری کے نیچے سے ملنا شروع ہو گئیں لیکن نواز شریف کا معاملہ برابر کرنے کے لئے جہانگیر ترین کی قربانی کا فیصلہ مجبوری بن گیا۔
یہ وہ پہلا لمحہ تھا جب جہانگیر ترین کو یہ احساس ہوأ کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ دار عمران خان ہیں۔ 2018 کے الیکشن میں جہانگیر ترین بمعہ خاندان حلقے کی سیاست سے فارغ ہو گئے۔ وہ عمران خان کے بعد پارٹی کے سب سے زیادہ طاقتور رہنما تھے لیکن وہ بھول گئے کہ ان کی پیسے کے ذریعے منیجمنٹ اور پیغام رسانی کے ذریعے عمران خان اپنی منزل تک پہنچ چکے ہیں اور اب ایسے شخص ان کی ضرورت کیسے ہو سکتی ہے جو خود ان کے لئے سیاسی بوجھ بن چکا ہو۔
مگر جہانگیر ترین بھی تو ہمیشہ سے سیاست کو کاروبار کے لئے ہی تو استعمال کرتے آئے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے حسب معمول چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت حاصل کر کے ایک دفعہ پھر مشرف حکومت والا تجربہ دہرایا اور تمام شوگر ملز کو ساتھ ملا کر اپنی سات سالہ سرمایہ کاری کا صلہ بمع سود حاصل کر لیا۔ واردات بھی اس طرح ڈالی کہ وزیراعظم، کابینہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت تمام لوگ صاف ملوث نظر آتے ہیں اور اب تمام ذمہ داران نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اسی کیفیت سے نجات کے لئے جہانگیر ترین کو باہر نکل بھاگنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ لیکن اب یار لوگ یہ دعویٰ کرنے لگ گئے ہیں کہ جہانگیر ترین تو بڑے قد کاٹھ کے سیاستدان ہیں، وہ جب چاہیں اپنے گروپ کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت کو چلتا کر دیں گے۔
ان دوستوں کے لئے مشورہ ہے کہ وہ ایسی پیشگوئی سے پہلے جہانگیر ترین کی سیاسی زندگی پر نظر ضرور دوڑا لیا کریں۔ وہ کاروباری آدمی تھے۔ رحیم یارخان سے سیاست میں بھی اچانک آ گئے لیکن اب تک کاروبار ہی ان کی پہلی ترجیح رہا ہے۔ اس کاروبار نما سیاست کے ذریعے وہ رحیم یارخان اور مظفر گڑھ سے شریف خاندان کو چینی کی صنعت سے باہر کر چکے اور اس سال تاحال کمایا جانے والا منافع تو کئی نسلوں تک یاد رکھا جا سکتا ہے۔
جہانگیر ترین نااہل ہو چکے ہیں اور پی ٹی آئی کے علاوہ ایسی اہمیت اب کہیں اور سے نہیں مل سکتی۔ جس ترین گروپ کا بہت شہرہ تھا وہ اپنی موت آپ مر چکا کیونکہ لوگ اس گروپ میں جہانگیر ترین کے عمران خان کے قریب ہونے کی وجہ سے شامل تھے۔ اب جس کی اپنی سیاست ہار گئی تو ہارے ہوئے کے ساتھ کون کھڑا ہوتا ہے؟ حد تو یہ ہے کہ بہت زیادہ پیسہ خرچ کرنے کے باوجود وہ یا علی ترین آج بھی کسی مقبول پارٹی ٹکٹ کے بغیر لودھراں سے الیکشن لڑنے کا تصور نہیں کر سکتے۔
جہانگیر ترین کی سیاست اپنے انجام کو پہنچ چکی۔ وہ کاروباری آدمی ہیں، اب ان کی صرف ایک ہی کوشش ہے کہ وہ سیاست کے ذریعے کمائی ہوئی دولت کو کسی طرح محفوظ کریں اور آئندہ بالواسطہ سیاست سے بھی باہر رہیں۔ ان کے باہر جانے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کوشش کامیاب رہی اور جن لوگوں نے ان کی دولت سے استفادہ کیا انہوں نے بھی ایسی ڈیل میں نے ہی عافیت جانی۔ وہ حالات موزوں ہونے پر ضرور واپس آئیں گے لیکن صرف کاروبار کریں گے اور لوگوں کو پرانے قصے سنا کر محظوظ کیا کریں گے۔ جہانگیر ترین کا مسئلہ ہی یہ تھا کہ وہ سیاست میں بھی کاروباری نفع نقصان ہی سامنے رکھتے تھے۔