ان ذمہ داریوں کی وجہ ان کو نوازنا نہیں بلکہ ملک، آئین، قانون اور جمہوریت کے ساتھ وفا اور محبت کو ان کی اہلیت اور قابلیت سمجھتے ہوئے ان کے جذبوں، توانائیوں، جراتوں اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے ان سے اس ملک و قوم کی خدمت کرنے کی گذارش ہے جس کی شاید ان کو خواہش بھی نہ ہو مگر ملک و قوم کو ان کی ضرورت ہے۔ ان میں وہ صحافی آتے ہیں جنہوں نے سچ کی آواز کو بلند کیا، وہ سیاست دان ہیں جنہوں نے اپنی راست بازی سے اقتدار کی ہوس کو شکست دی یا ایسے رازوں سے پردہ اٹھایا جو اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کا سبب بننے جا رہے تھے۔ وہ جج ہیں جنہوں نے اپنے مستقبل، جان و مال اور عزت و آبرو کو داؤ پر لگا کر آمریت کے سامنے ڈٹ کر بہادری سے ناانصافی کی مذموم سازشوں کو بے نقاب کیا۔
ہماری پارلیمنٹ کو تین تمغوں کا بھی اعلان کرنا چاہئیے جو تمغہ انصاف، تمغہ جمہوریت اور تمغہ صدق کے ناموں سے ہوں اور ان عظیم شخصیات کو دیے جائیں جنہوں نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک اپنی سوچ و عمل سے اس ملک و قوم کی جمہوری رویے، انصاف پسندی اور اصولی سیاست سے خدمت کر کے اس ملک کو ناقابل تسخیر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہئیے جو ایسی شخصیات کی فہرستیں مرتب کرے اور پھر ان کو ذمہ داریاں سونپنے کی سفارشات بھی پیش کرے اور ایسی شخصیات پر یہ ذمہ داریوں قبول کرنے کے لئے دباؤ ڈالے تا کہ قوم کو صحیح قیادت میسر آئے۔ میں عوامی نمائندگان کی یہ ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ وہ صحیح معنوں میں اہل اور قابل قیادت کو سامنے لانے کے لئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں جس سے ایسے لوگوں کو خدمت کے لئے سامنے لایا جا سکے جن کے اندر اعلیٰ عہدوں کی خواہش نہیں اور وہ ذمہ داریوں سے بھاگتے ہیں تا کہ اس ملک کی تقدیر کو بدلا جا سکے اور اس ملک کو بہروپیوں اور مفاد پرست ٹولوں سے نجات دلائی جا سکے جو خوشامدیوں کی طرح لائن میں لگے ہوتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے چناؤ کے لئے بھی کوئی طریقہ کار وضع کیا جائے جس سے علم، تجربہ اور کارکردگی کے ساتھ ساتھ سادگی، اعلیٰ اخلاق و کردار اور تقویٰ کے حامل لوگوں کا چناؤ ممکن بنا کر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئیے جنہوں نے خود ان تمام اوصاف کے ساتھ زندگی گزاری ہو اور جن کے نزدیک حقیقت، سچائی، رواداری اور انسانیت سے محبت ہی تعلق اور حوالوں کے پیمانے ہوں۔
جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لئے قومی شعور اور اعلیٰ اخلاق کا ہونا انتہائی ضروری ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر براہ راست ہم اس سے مستفید نہیں ہو پا رہے تو ہمیں بالواسطہ کوئی ایسی راہ نکال لینی چاہئیے جس سے ہم مطلوبہ مقاصد حاصل کر سکیں۔ ہمیں ملکی انتظام و انصرام سنبھالنے کے لئے اچھے ذہن اور کردار چاہئیں جن کو ہم تکنیکی ذرائع کے طور پر اپنا کر بھی اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں درج بالا خصوصیات کی حامل شخصیات کا ایک تھنک ٹینک بنانا چاہئیے جو اپنی صلاحیتوں اور کردار کے بل بوتے پر ہمیں درپیش مسائل کا مقابلہ کرنے کا لائحہ عمل دے اور ہماری جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لئے سفارشات پیش کرتا رہے جس سے ہمارے مطلوبہ باشعور اور اعلیٰ اخلاق کے ہدف کا حصول ممکن بن سکے۔
ایسی شخصیات جو متنازعہ نہ ہوں، جن پر تمام سیاسی حلقوں کا بھی اتفاق ہو مثلاً جسٹس وجیہ الدین، جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور مخدوم جاوید ہاشمی وغیرہ وغیرہ کو فوری طور پر ان کی قابلیت کی نسبت سے ذمہ داریاں سونپی جانی چاہئیں اور مزید ہیروں کو ڈھونڈنے کی ذمہ داریاں بھی انہی کو دی جا سکتی ہیں۔
ایسے تھنک ٹینکس کو خاص ماحول میں رکھا جانا چاہئیے جن پر بیرونی عوامل اثر انداز نہ ہو سکیں اور نا ہی ممکنہ خطرات کی ان تک دسترس ہو۔ سیاسی نظام یا ادارہ جاتی سیاست کے ساتھ ملوث ہونے کے ماحول کے ان پر اثرات نہ پڑنے دیے جائیں تاکہ یہ تھنک ٹینک تنازعات سے بچا رہے اور اپنا کام بخوبی سرانجام دینے کی حالت میں رہے۔
اوپر بیان کردہ یہ نمونہ وقتی طور پر ایک متبادل کے طور پر کام کرے گا جو اچھا ماحول پیدا کرنے میں ممد و معاون ہو گا۔ دراصل ہمیں اس حقیقی ماڈل کی طرف ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے جس سے افراد کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی کر کے ایک مثالی معاشرے کی تخلیق کے ذریعے سے تمام مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے۔ جو ہمارا نظریاتی ماڈل ہے جس کے لئے اس ریاست کو وجود ملا تھا جو ہماری قومی اور اسلامی اقدار کا ضامن اور ہمارا اصل ورثہ ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ سراہا جانے والا انسانی تاریخ میں پائیدار ترقی کا نمونہ ہے۔ جو معاشرتی ترقی سے لے کر معاشی ترقی اور دفاعی سے فلاحی حکمت عملیوں تک کا احاطہ کرتا ہے۔
اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم پروٹوکول مافیا سے جان چھڑائیں جو زبردستی اس ریاست کی خدمت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ جو سیاست کو کاروبار، عدالت کو سیاست اور حکومت کو بادشاہت کی طرز پر چلا رہے ہیں۔ جن اعلیٰ عہدوں پر براجمان شخصیات کے اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کے انکشافات اور ریاست کی تباہی کا سبب بننے والے کارنامے بے نقاب ہو چکے ہیں اور ان کو ابھی بھی اس پر شرمساری نہیں ہو رہی ان کو واقعی قرار سزا دے کر ایک عبرت ناک مثال بھی قائم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اس غیر فطری گٹھ جوڑ کا راستہ بند کیا جا سکے جو 75 سالوں سے رائج ہے۔