اگر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو ہم اگلے اجلاس میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی قرداد پیش کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان، پی ٹی آئی چیئرمین گوہر علی خان، پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر اور زرتاج گل بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
محمود خان اچکزئی نے سپیکر قومی اسمبلی کے جانبدارانہ کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آپ سپیکر بنے ہیں نہ کہ ڈکٹیٹر، آپ اس وقت مسلم لیگی کارکن یا حوالدار نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ 24 کروڑ عوام کا نمائندہ ادارہ ہے، ہم اسے ڈبیٹنگ کلب بننے دیں گے اور نا ہی ربڑ سٹمپ۔ اس ملک میں پارلیمنٹ کی بالادستی کو اس وقت تسلیم کیا جاتا ہے جب 10 سالہ مارشل لاء کے گناہوں کو پارلیمنٹ کے ذریعے معاف کرانا مقصود ہو۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
انہوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ممبر پارلیمنٹ کو استحقاق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی جیل کا معائنہ کر سکتا ہے لیکن یہاں ممبران اسمبلی کے وفد کو جیل میں اپنے لیڈر سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔
محمود خان اچکزئی نے حکومت کی جانب سے آئی ایس آئی کو فون کال ریکارڈ کرنے کا اختیار دینے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اپوزیشن کی جانب سے اس قانون سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس فیصلے کے ذریعے پارلیمنٹ کو بلڈوز کیا ہے۔
انہوں نے پارلیمنٹ کے فلور پر اور پارلیمنٹ سے باہر اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر کو سنسر کرنے اور میڈیا سے بلیک آؤٹ کرنے کے عمل کی پُرزور مذمت کی اور سپیکر پر زور دیا کہ معزز ممبران اسمبلی فلور پر جو کچھ کہیں، سپیکر کا فرض ہے کہ اسے من و عن ریکارڈ کرنا یقینی بنائیں۔