شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر عبدالناصر خان نے مفاد عامہ کے پیش نظر ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 کے نفاذ کا حکم دیا ہے۔
دفعہ 144 کے تحت، ضلع میں امن و امان کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر دھرنوں، احتجاجی ریلیوں، جلسوں اور پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے یکجا ہونے پر پابندی عائد ہو گی۔
ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان کے مطابق، اس حکم کا اطلاق پورے ضلع پر ہو گا اور جو کوئی اس پر عملدرآمد نہیں کرے گا، اسے تعزیزات پاکستان کی دفعہ 188 کے تحت سزا دی جا سکتی ہے، تاہم اس حکم کا اطلاق مساجد میں نماز یا نماز جنازہ کے اجتماعات پر نہیں ہو گا۔
واضح رہے کہ شمالی وزیرستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران سکیورٹی اہل کاروں پر حملوں کے بعد دفعہ 144 کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے۔
فوج نے ان حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد عناصر پر عائد کی ہے۔
گزشتہ ہفتے سات جون کو ضلع کے علاقے خڑکمر میں بارودی سرنگ دھماکے میں پاک فوج کے تین افسر اور ایک اہل کار شہید ہو گئے تھے۔
بارودی سرنگ کا یہ دھماکہ شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر ہونے والی فائرنگ اور بم حملے کے ایک ہفتے سے بھی کم عرصہ بعد پیش آیا جس میں ایک فوجی جوان شہید ہوا تھا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، حالیہ کچھ عرصہ کے دوران شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
آئی ایس پی آر نے دہشت گردی کے اس واقعہ کے تانے بانے 26 مئی کو خڑ کمر چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے سے جوڑے تھے۔
یاد رہے کہ پاک فوج کے مطابق، بویا سکیورٹی چیک پوسٹ پر ایک گروہ نے ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں حملہ کیا تھا جس میں پانچ سکیورٹی اہل کار زخمی ہو گئے تھے جب کہ جوابی کارروائی میں تین افراد جان کی بازی ہار گئے اور 10 زخمی ہوئے جس کے بعد علاقے میں کچھ عرصہ کے لیے کرفیو بھی نافذ رہا تھا۔