خود نواب آف کالا باغ نے اپنی اس ناکامی کا اعتراف درج ذیل الفاظ میں کیا تھا:" میں اپنے دورِ حکومت میں صرف ایک شخص سے عاجز آیا اور وہ تھا حبیب جالب، میں اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکا، اگر اس کی زمین ہوتی تو میں چھین لیتا، جائیداد ہوتی تو ضبط کر لیتا، کھیت ہوتے تو جلا ڈالتا، سرمایہ ہوتا تو تگنی کا ناچ نچا دیتا مگر اس کے پاس شاعری تھی اور شاعر کا ضمیر، جس کا میں کچھ نہ بگاڑ سکا۔“
ہماری تاریخ کے ایک بدترین آمرِ مطلق کا یہ اعترافِ شکست حبیب جالب کی عظمت کا بہترین ثبوت ہے۔ حبیب جالب ہمارے شعری اُفق پراُس وقت نمودار ہوئے تھے جب قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ تحریکِ پاکستان میں سرگرمِ عمل تھی۔ اس تحریک کے زیرِاثرحبیب جالب ایک رومانی شاعر سے انقلابی شاعر کی منزل کی جانب گامزن ہو گیا تھا۔ طلوعِ پاکستان کے بعد جب تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال فراموش کر دیئے گئے تب جالب کی شاعری انقلابی سیاسی عمل کی نغمہ گری بن گئی۔ احمد ندیم قاسمی نے جالب کی شاعری کے اس ارتقائی سفر کے بیان میں لکھا ہے کہ”بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ لمحے فن میں ڈھل کر صدیاں بن جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تو مولانا ظفر علی خاں کی استعمار دشمن شاعری ہے، اُن کے فوراً بعد حبیب جالب کا نام آتا ہے۔ حبیب جالب ترقی پسند ادب کی تحریک کی پیداوار تھا مگر گزشتہ پچیس برس کے ادبی منظر میں اُس کی شخصیت شاید واحد شخصیت ہے جس نے بجائے خود ایک تحریک کا منصب ادا کیا ہے"
احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں اس تحریک نے شاعری کو ایک انقلابی سیاسی عمل کی مقبولیت بخش دی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ایوب آمریت کے دور میں جالب کا مجموعہئ کلام ”سرِمقتل“ حکومت نے ضبط کر لیا تھا تو ہمارے گاؤں کا ایک نیم خواندہ سیاسی کارکن اس کتاب کی تلاش میں میرے پاس آیا تھا اور جالب کی یہ کتاب پڑھنے کو لے گیا تھا۔”سرِ مقتل کی ضبطی پر“خود جالب نے اپنی ذات سے بالا تر ہو کر بڑے اعتماد سے پیش گوئی تھی:
مرے ہاتھ میں قلم ہے مرے ذہن میں اُجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکرِ امنِ عالم تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں تُو غُروب ہونے والا
پاکستان پر ایوب آمریت کے تسلط کے خلاف حبیب جالب نے اپنے سیاسی عمل سے پھوٹتی ہوئی شاعری سے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ جب ایوب نے اپنے چند ملازموں کا لکھا ہوا آئین جاری کیا تو اُس کے خلاف سب سے مؤثر احتجاج حبیب جالب کی نظم ”دستور“ کی عوامی مقبولیت کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ نظم صرف حبیب جالب ہی نے عوامی سیاسی جلسوں کی اسٹیج پر اپنی دل نشیں اور دلنواز آواز میں نہیں سُنائی بلکہ عوام نے ان کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملا کر پڑھی اور آج تک پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔اس تاریخ ساز نظم کے پہلے دو بند درج ذیل ہیں:
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نُور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
میں بھی خائف نہیں تختہئ دار سے
میں بھی منصور ہوں قید و اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
اس دور کی’جمہوریت‘،’اپنی جنگ رہے گی“،’بھیک نہ مانگو‘،’مشیر‘اور ’وزیرانِ کرام‘ کی سی نظموں میں جالب نے آمریت کواپنے بیباک اور دوٹوک انداز میں ظلم کی رات اور ایوب آمریت کے حامیوں کے استدلال کو کذب و افتراقرار دیا:’وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظامِ زر ہے خطرے میں / حقیقت میں جو رہزن ہے وہی رہبر ہے خطرے میں‘۔جب ایوب خان کو اپنا اقتدار بہ امرِمجبوری جنرل یحییٰ خان کے سپرد کرنا پڑا تو یحییٰ خان نے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے وطن کے ہر شہری کوروٹی، کپڑا اور مکان مہیا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سوشلزم کو پاکستان کا نظامِ معیشت قرار دیا۔اس پر اسلامی سوشلزم کے تصور پرایک بحث چھڑگئی۔
https://www.youtube.com/watch?v=V2muWwwmq9c
محمدحنیف رامے نے اپنے رسالہ ”نصرت“ میں اسلامی سوشلزم کو”مساواتِ محمدیﷺ“ سے تعبیر کیا۔”نصرت“ کے اسلامی سوشلزم نمبر کی تردید میں پروفیسر خورشید احمد نے ماہنامہ ”چراغِ راہ“ کا اسلامی سوشلزم نمبر شائع کیا جس میں سوشلزم کو اسلام مخالف آئیڈیالوجی ثابت کیا گیا۔جماعتِ اسلامی اور دائیں بازو کی جماعتوں نے اپنی اپنی انتخابی مہم میں ’اسلام خطرے میں ہے‘ کی دُھائی دی۔ اس پر جالب نے دادِ سیاست اور دادِ سخن دیتے ہوئے ’خطرے میں اسلام نہیں‘ کے عنوان سے ایک مقبول نظم لکھی جو یوں شروع ہوتی ہے:
خطرہ ہے زرداروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں؟
نام نبیؐ کا لینے والے اُلفت سے بیگانے کیوں؟
اسی طرح ’علمائے سُو کے نام‘،’مولانا‘ کی سی نظموں میں اسلام کی غلط تفسیر و تعبیر کو رد کرکے اسلام کی سچی انقلابی تعبیر پیش کی گئی ہے۔اسی سلسلہئ خیال کی ایک اور نظم ’پاکستان کا مطلب کیا؟‘ یوں شروع ہوتی ہے:
روٹی، کپڑا اور دوا
گھر رہنے کو چھوٹا سا
مفت مجھے تعلیم دِلا
میں بھی مسلماں ہوں واللہ
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ الا اللّٰہ۔۔۔
کھیت وڈیروں سے لے لو
ملیں لٹیروں سے لے لو
مُلک اندھیروں سے لے لو
رہے نہ کوئی عالی جاہ
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ الا اللّٰہ۔۔۔
جالب نے اسی رو میں اسلام کے مقدس نام پر مفاد پرست، استحصال پسنداور عوام دشمن سیاسی گروہوں کو عوام کے دل میں اُتر جانے والی زبان میں للکارا اور یوں اسلام کے معاشی انصاف اور معاشرتی مساوات کے تصورات غریب اور ناخواندہ عوام کے دل میں اُترتے چلے گئے۔ معاشی ناہمواری کے باعث دولت کے فقط چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جانے کے خلاف اُن کی شاعری میں نظم ”بیس گھرانے“ غریب اور ناخواندہ عوام کے لبوں پر بھی رواں ہو گئی تھی۔صرف آغاز کے چند مصرعوں میں ہی آمریت اور سرمایہ پرستی کے بھیانک اثرات نمایاں تر ہو گئے ہیں:
بیس گھرنے ہیں آباد
اور کروڑوں ہیں ناشاد
صدر ایوب زندہ باد
آج بھی ہم پر جاری ہے
کالی صدیوں کی بیداد
صدر ایوب زندہ باد
جالب کی یہ نظمیں ہماری عوامی جمہوری تاریخ کے وہ درخشاں ابواب ہیں جو تاریخ کی کتابیں سے تو غائب ہیں مگر عوام کے دل و دماغ میں محفوظ ہیں۔ یہ نظمیں نظریاتی تصادم کی سی صورتِ حال میں اسلام کی انقلابی روح اور جالب کی نظریاتی پختگی کی تابندہ مثال ہیں۔ جب آمرِ مطلق ایوب خاں کو اپنی بنیادی جمہوریت کے تحت انتخابات کرانا پڑے تو اُس کے مقابلے میں اپوزیشن نے متحد ہو کر مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا مشترکہ نمائندہ قرار دیا۔ مادرِ ملت کے انتخابات کی سیاست میں اُترتے ہی نوجوان اُن کی قیادت میں سرگرمِ عمل ہو گئے۔ لاٹھی گولی کی سرکار نے نوجوانوں کو لہومیں نہلانا شروع کر دیا۔ اس پر مادرِ ملت کے احتجاجی سیاسی عمل کو جالب نے اپنی نظم بعنوان ”ماں“ میں زندہ جاوید کر دیا ہے۔ نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے:
بچوں پہ چلی گولی
ماں دیکھ کے یہ بولی
یہ دل کے مِرے ٹکڑے
یوں روئیں مِرے ہوتے
میں دُور کھڑی دیکھوں
یہ مجھ سے نہیں ہوگا
٭
میداں میں نکل آئی
اک برق سی لہرائی
ہر دستِ ستم کانپا
بندوق بھی تھرائی
ہر سمت صدا گونجی
میں آتی ہوں، میں آئی
میں آتی ہوں، میں آئی
٭
مادرِ ملت کی وفات اور اُن کی پہلی برسی پر بھی جالب نے اُنھیں اسی عقیدت اور محبت کے ساتھ یاد کیا ہے۔ آخرالذکر نظم میں محترمہ کے فیضان کا ذکردرج ذیل انداز میں کیا گیا ہے:
وہ نقشِ قائداعظم اُبھارنے آئی
وہ رنگ روئے گلستاں نکھارنے آئی
مقدر اہلِ وطن کا سنوارنے آئی
وہ اپنی جان غریبوں پہ وارنے آئی
اُسے نہ جاہ و زر و مال کی ضرورت تھی
فقط عوام کے اقبال کی ضرورت تھی
دو مجبورو مظلوم رقاصاؤں،نیلو اور ممتاز سے آمرانہ بدسلوکی پر رنج و غم میں ڈوب کر جالب نے دو خوب صورت نظمیں کہی تھیں۔ آمریت کے دور میں شہنشاہِ ایران کی خوشنودی کی خاطرنامور رقاصہ نیلو کو رقص کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ نیلو نے انکار کر دیا تھا۔ اس پر اُسے گرفتار کر کے محفلِ رقص میں لے آیا گیا تھا۔ نظم نیلو کے پہلے دو مصرعے قارئین کی نذر ہیں ’تو کہ ناواقفِ آدابِ شہنشاہی تھی/رقص رنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘۔دوسری رقاصہ ممتاز کے ایک ایسے تجربے سے پھوٹنے والی نظم کا پہلا مصرعہ ہی ہم سے بہت کچھ کہتا نظر آتا ہے: ’قصرِ شاہی سے یہ حُکم صاد ر ہوا، لاڑکانے چلو،ورنہ تھانے چلو‘۔ایوب خان نے خود اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کی بجائے جنرل یحییٰ خاں کے سپرد کر دیا۔ یحییٰ خاں نے انتخابات تو کرائے مگر عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے خود آمرِ مطلق بن بیٹھا۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے اس بدمست آمریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو آمریت نے وحشت و بربریت کی انتہا کر دی۔ ایسے میں حبیب جالب بذاتِ خود مشرقی پاکستان گئے اور اپنے ذاتی مشاہدات کی روشنی میں اس نتیجے پہ پہنچے کہ مشرقی پاکستان کے عوام کو زبردستی علیحدگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اس پر جالب نے انتہائی دردمندی کے ساتھ یہ سوال اُٹھایا کہ:
محبت گولیوں سے بو رہے ہو؟
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو؟
https://www.youtube.com/watch?v=P5p7x_0QmFA
پاکستانیوں کے ہاتھ سے پاکستانیوں ہی کے قتلِ عام سے پھوٹنے والی جالب کی شاعری ”ذکر بہتے خوں کا“ضبط کر لی گئی تھی۔ زاہد حسین اور ثروت علی کو اپنے ایک انٹرویومیں جالب نے اس بہیمیت کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے امریکی غلامی اور جاگیرداری نظام کا بطورِ خاص ذکر کیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں جاگیرداری نظام قیام پاکستان کے ساتھ ہی ختم کر دیا گیا تھا جب کہ اُس وقت کا مغربی پاکستان اور آج کا پاکستان آج تک جاگیرداری نظام کے چُنگل میں بدستور پڑا سسکتا ہے.
https://www.youtube.com/watch?v=IbzrdAAsbYU
اپنے اسی انٹرویو میں جالب نے اس بات کا بڑے فخر سے ذکر کیا ہے کہ وہ نچلے طبقے (lower caste) کے ایک گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ میں اُن کے اس بیان اور اُن کے والدِ مرحوم اور اُن کے اپنے کردار کی روشنی میں سمجھتا ہوں کہ حبیب جالب ایک غریب اور غیور خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ حق گوئی و بیباکی اُن کی فطرتِ ثانیہ تھی۔ اسی غیرتِ فقر کے نشے میں وہ تمام عُمر سرگرمِ عمل رہے۔
جب بے نظیر بھٹو شہید اپنی طویل جلاوطنی کے بعد پہلی بار پاکستان آئیں تو عوام نے جس والہانہ پن سے اُن کا استقبال کیا اُس سے آمریت کے درودیوار لرزنے لگے تھے۔ حبیب جالب نے اس صورتِ حال کی مصوری اور ترجمانی اپنی نظم ”نہتّی لڑکی“میں کی تھی۔ نظم کے دو ابتدائی اشعار پیشِ خدمت ہیں:
ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہّتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اُجالے ایک نہتّی لڑکی سے
ڈرے ہوئے ہیں، مرے ہوئے ہیں، لرزیدہ لرزیدہ ہیں
مُلاّ، تاجر، جنرل، جیالے، ایک نہتّی لڑکی سے
حبیب جالب اور اُس کے خاندان نے قید و بند کے دوران جس جرأتِ کردار کا مظاہر ہ کیا وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ تمامتر مصائب و آلام کے باوجود وہ پاکستان سے ویسی ہی محبت کرتے رہے جیسے تحریکِ پاکستان کے دوران پاکستان کے خوابوں سے دل و دماغ کو منور رکھتے تھے۔ اُن کی ساری جدوجہد پاکستان کے اس خطہئ خاک کوسرزمینِ پاک بنانے کی تمناؤں سے سرسبزوشاداب رہی تھی۔ یہاں مجھے اُن کی ایک نظم”ہتھکڑی“ یاد آ رہی ہے جس میں انھوں نے اپنی چھوٹی بیٹی سے ہمارے روشن مستقبل کی تمنائیں وابستہ کی ہیں:
اُس کو شایَد کھلونا لگی ہتھکڑی
میری بچی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی
یہ ہنسی تھی سحر کی بشارت مجھے
یہ ہنسی دے گئی کتنی طاقت مجھے
کس قدر زندگی کو سہارا ملا
ایک تابندہ کَل کا اشارا ملا
حبیب جالب کی شخصی عظمت اورعوامی سیاست کا انتہائی قابلِ تحسین وصف یہ ہے کہ وہ عُمر بھر احتساب و تعزیر میں مبتلا رہنے کے باوجود کبھی بھی پاکستان کے روشن مستقبل سے کبھی مایوس نہ ہوئے تھے۔ اُن کی مصائب و مشکلات سے پُرزندگی نت نئی اُمیدوں کے سہارے پروان چڑھتی رہی۔ اُنھوں نے اپنی ذات اور اپنے وطن پر نازل ہونے والی ہر مشکل میں اُمید کی نئی تابندگی پائی اور عوام کو سہانے مستقبل کے خواب دکھانے میں منہمک رہے۔
ایک اور نظم بعنوان ”اپنے بچوں کے نام“میں وہ اپنی اولاد کویقین دلاتے ہیں کہ ع:’میں ضرور آؤں گا ایک عہدِ حسیں کی صورت‘۔ جالب عوام کے شاعر تھے اور عوام ہی کی زبان میں لوک گیت کی سی سادگی اور رنگینی کے ساتھ انقلاب کے ترانے الاپتے چلے گئے اور جاتے جاتے یہ سوال بھی اُٹھاتے چلے گئے کہ ع: ’بھیک سے ملک بھی چلے ہیں کہیں‘۔ آئیے جالب کے اس سوال پرذرا سا غور کرنے کے لیے تھوڑا سا وقت نکال لیں۔