یاد رکھیں اور یہ بات ذہن نشین کر لیں، کہ دنیا صرف تماشا دیکھنے کے لئے جمع ہوتی ہے۔ اس غلط فہمی میں کبھی نہ رہیں۔ کہ یہ دنیا میرے ساتھ دینے کے لئے جمع ہو گی۔ کچھ دنوں پہلے میں نے ایک تحریر لکھی پھر سوچتا رہا اس تحریر کو شائع کرنے کے لئے بھیج دوں یا نہیں۔ دوست نے کال کی ارے بھائی آپ نے تحریر کو مکمل نہیں کیا۔ میں نے کہا ارے سنو! میں نے وہ تحریر مکمل کی ہے لیکن شائع نہیں کرسکتا۔ کہنے لگا وہ کیوں؟ میں نے کہا دنیا صرف تماشا دیکھنے کے لئے جمع ہوتی ہے، کسی سے ہمدردی کے لئے دنیا کو جمع ہوتے ہوئے دیکھا آپ نے کہیں۔
کہنے لگا ہاں امریکہ میں دیکھا ہے۔ میں نے اُف خدایا کہا اور ساتھ میں یہ بھی کہ آپ امریکہ میں رہتے ہو یا پاکستان میں۔ اس کو ہنسی آئی اور خوب ہنسی کے ساتھ یہ کہنے لگا کہ بھائی ہم غریبوں کا مذاق مت اڑائیں۔ میں نے اسے سمجھایا دنیا سے مراد میرا ''دل دل پاکستان'' ہے۔ چین، جاپان اور امریکہ نہیں۔ وہ الگ دنیا ہے اور پاکستان الگ دنیا ہے۔
خیر بحث چلتی رہی اور آخر میں وہ سمجھ گیا کہ میں کیا کہنا چاہ رہا تھا۔ کسی نے کال کی، جو غلط ترجمہ کے وجہ سے مجھے باتیں سنا رہی تھیں۔ خدا نے سننے کے لئے حوصلہ دیا اور میں سنتا رہا حتی کہ اس حد تک باتیں سنائی کہ کاشف آپ نارمل نہیں ہو۔ میں اس وقت کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن پھر ان باتوں کو میں نے سینے میں ہی رہنے دیں۔ میں نے صرف آخر میں یہ کہا آئندہ خیال کروں گا۔ کہنے لگی شاباش۔ مجھے آپ سے یہی امید تھی، شکریہ۔ اور فون کاٹ دیا۔
قسم سے لوگوں کو اگر مردہ لاش ملے تو شک وشبہات کے بنا پر اس لاش کے بارے میں ایسی ایسی رائے قائم کرلیں گے کہ جو سوچ اور ذہن کو عجیب کشمکش میں مبتلا کردیتی ہے۔ میں جب کسی چیز کے بارے میں رائے قائم کر لیتا ہوں تو اسے پھر وقت کے انتظار پر چھوڑ دیتا ہوں۔ میں خود کو انسان کے بارے میں رائے قائم کرنے کا قابل نہیں سمجھتا۔
زندگی کی ہر کہانی کو لکھوں اور ہر کہانی کو وقت پر ہی شیئر کرلوں وقت سے پہلے کہانی لکھاری کے لئے مزید کہانیاں پیدا کرلیتی ہے اور وقت کے ساتھ کہانی لکھاری کو کچھ نہیں کہتی۔ کیونکہ لکھاری کو قلم پر کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے۔