خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

05:22 PM, 10 Jun, 2020

حسن ساجد
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا کی سب سے عظیم ہستی اور بہترین شخصیت ہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنی لاریب کتاب قرآن مجید میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی کو قیامت تک کے انسانوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ محسن انسانیت، رحمت اللعالمین، مصلح عالم، ہادی برحق کی مبارک اور جامع ترین سیرت پاک میدان حرب کے بہادر جرنیل سے لے کر تجارتی منڈی کے بہترین تاجر اور معیشت دان تک ہر شعبہ ہائے زندگی سے منسلک شخص کے لیے مکمل رہنمائی کا واحد سرچشمہ ہے۔ شہنشاہ عرب و عجم نے زندگی کے ہر شعبے میں انسانیت کی مکمل اور کامل ترین رہنمائی فرمائی ہے۔

حضور نبی کریم ﷺ کی مبارک ہستی کی نظر میں دفاع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وصال کے وقت آپ ﷺ کے حجرہ مبارک میں دیا جلانے کے لئے تیل تو موجود نہیں تھا مگر مستند روایات کے مطابق آپ ﷺ کے حجرہ مبارک میں نو یا گیارہ تلواریں موجود تھیں۔ کائنات کی سب سے شفیق، مہربان اور دانا ترین شخصیت کی ملکیت میں بیک وقت نو تلواروں کا موجود ہونا جبکہ شہنشاہ عرب و عجم کا بعض ایام فاقہ کشی میں گزارنا تمام انسانیت کو دفاع کی اہمیت اور باقی امور پر اس کی فوقیت واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

اگر ہم انفرادیت کی بہترین مثال سے اجتماعیت کی بہترین مثال کی طرف بڑھیں تو اسلام بطور دین دنیا بھر میں امن و سلامتی، محبت و اخوت اور بھائی چارے کا داعی دین ہے۔ اسلام کا دامن انتہا پسندی، نفرت، دہشت گردی اور شدت پسندی سے بالکل پاک ہے۔ یہ دین محبتیں بانٹنے والا اور بھائی چارے کو فروغ دینے والا دین ہے مگر اسلام میں بھی شرانگیزی سے نبرد آزما ہونے اور ریاست کے مضبوط دفاع کا واضح حکم ہے۔ اللہ پاک نے دفاع کو مضبوط رکھنے کا حکم صادر فرمایا ہے اور دفاعی نظام کی بہتری اور عسکری قوت کی مضبوطی کے لئے قرآن مجید میں باقاعدہ آیات کا نزول فرمایا ہے۔ اسلام میں ریاست کے دفاع کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اور دفاع ریاست کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا کے لئے بہت زیادہ اجر و ثواب اور مرتبہ ہے۔

اگر ہم اسلام سے ہٹ کر بھی بات کریں تو بھی مضبوط دفاع اور بہترین عسکری قوت ریاستی قیام، اس کے تحفظ، اس کی سالمیت کی حفاظت اور حکمرانی کو قائم رکھنے کیلیے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ تاریخ انسانی ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں مضبوط عسکری قوت کے حامل چھوٹے ممالک یا قبائل نے بڑے بڑے ممالک پر حکمرانی کی ہے۔ برطانیہ جیسے چھوٹے سے جزیرے نے بندوق کے زور پر اس دور کی مضبوط ترین معیشت برصغیر پاک و ہند سمیت پوری دنیا پر حکمرانی کی۔ پرتگال فرانس، جرمنی اور سپین کا بھی یہی حال ہے۔ اگر تھوڑا اور پیچھے جائیں تو ماضی ہمیں یاد دلائے گا کہ معاشی طور پر کمزور مگر عسکری طور پر مضبوط ایک چھوٹے سے ترک قبیلے (قبیلہ قائی) نے تین براعظموں پر محیط ساڑھے چھ سو سال تک قائم رہنے والی خلافت عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔ اگر زمانہ حال کی مثال لی جائے تو اس وقت امریکہ پوری دنیا میں قائم کردہ اپنی فوجی چھاؤنیوں کے ذریعے دنیا پر اپنی دھاک بٹھائے ہوئے ہے۔

اس ساری تمہید کا مقصد پاکستان کے سالانہ بجٹ میں محکمہ دفاع اور عسکری قوت کے لیے مختص رقم اور اس پر ہونے والی تنقید برائے تنقید کو حقائق کی روشنی میں زیر بحث لانا ہے۔

تو آئیے سب سے پہلے میسر اعداد و شمار کی مدد سے پاکستان کی عسکری قوت پر خرچ ہونے والی رقم کا دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا پاکستان واقعی باقی دنیا کی نسبت اپنے بجٹ میں ایک خطیر رقم دفاعی امور کے لیے مختص کرتا ہے؟

راقم الحروف کو جو اعداد وشمار میسر آئے ہیں اس کے مطابق پوری دنیا کے دفاعی بجٹ کا تقریبا 36 فیصد حصہ امریکہ، 10 فیصد چین، پانچ فیصد روس اور چار چار فیصد سعودیہ اور بھارت خرچ کرتے ہیں جبکہ باقی کا چالیس فیصد پوری دنیا کے ممالک استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے ازلی دشمن اور حریف ملک بھارت کے دفاعی بجٹ کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا دفاعی بجٹ ہمارے کل بجٹ کے برابر ہوتا ہے اور فاشسٹ مودی کے آنے کے بعد انڈیا بھاری اسلحہ امپورٹ کرنے کی دوڑ میں سب سے پہلا ملک بن چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں بجٹ میں دفاع کے لیے مختص رقم میں کمی کا مطالبہ کرنا کسی صورت بھی دانشوری نہیں ہوگی۔ کیونکہ پاکستان کو ہر صورت ایک مضبوط دفاعی بجٹ کی ہمہ وقت اشد ضرورت ہے۔

دفاعی بجٹ کو مضبوط رکھنے کی دوسری بڑی وجہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ہے کیونکہ جغرافیائی اہمیت کی بنیاد پر پاکستان کو گولڈن لینڈ برج یا بین الاقوامی چوراہا/ گزر گاہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان وسط ایشیائی ممالک اور مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیائی ممالک کو بحیرہ عرب کے ذریعے آپس میں ملانے کا کام کرتا ہے۔ پاکستان چین روس اور افغانستان سمیت کئی ممالک کو گرم پانیوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ ایسی اہم ترین گزر گاہ ہونے اور حساس جغرافیائی محل وقوع پر موجود ہونے کی وجہ سے پاکستان کو اپنے تحفظ اور اپنی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لئے ہمہ وقت ایک مضبوط عسکری قوت کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان کے مضبوط دفاعی بجٹ کی تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک طویل ورکنگ باؤنڈری رکھنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی پراکسی وار کا ایک اہم ترین رکن ہے۔ جس کے باعث سرد یا کھلی جنگ کے خطرات ہر وقت ہماری ریاست پر منڈلاتے رہتے ہیں۔

پاکستان دو دہائیوں سے ملک کے اندر افغان سرحد، وزیرستان اور بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف اہم ترین اور طویل جنگ لڑ رہا ہے جس میں ہمارے کئی بہادر نوجوانوں نے قیام امن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ایک طرف پاکستان کو مشرقی سرحد پر انڈیا جیسے انتہا پسند اور جنگی جنون رکھنے والے دشمن کا سامنا ہے جو آئے روز لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کے ذریعے ہماری عوام اور املاک کو ٹارگٹ کرتا ہے۔ فاشسٹ مودی اور ہندو انتہا پسند بی جے پی کے برسراقتدار آتے ہی خطے میں امن و سلامتی کی فضا بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ آئے روز بارڈر پر چھوٹی موٹی جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں۔ انڈیا ہر وقت پاکستان پر حملے کے لیے پر تولتا ہوا نظر آتا ہے مگر افواج پاکستان کی مضبوط وقت عسکری قوت ہمیشہ سے اپنے دشمن کے ناپاک عزائم کو کو ناکام بنائے ہوئے ہے۔ دوسری جانب NDS کے ساتھ مل کر افغان سرحد کے ساتھ موجود دہشت گردوں کی مدد کرکے بھارت پاکستان کا امن مسلسل خراب کیے ہوئے ہے۔ بھارت اور افغانستان بد نام زمانہ خفیہ ایجنسیوں را اور این ڈی ایس کے ذریعے پاکستان میں ہر وقت تخریب کاری کے لیے منصوبے بناتا ہے جسے پاکستان صرف اپنی مضبوط عسکری قوت کے بل بوتے پر ہی ناکام بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔ لہذا اگر ہم نے اپنی دفاعی طاقت میں کمی کی تو اس کے سنگین نتائج کا سامنا کچھ اچنبے کی بات نہ ہوگی۔

اگر حالیہ واقعات کا جائزہ لیا جائے تو لداخ واقعہ کے بعد چین اور اس کے ساتھ ساتھ سری لنکا اور نیپال کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی ہزیمت کا اثر زائل کرنے کے لیے اور اپنی عوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھارت پاکستان سے ہلکی یا شدید جنگ کا آغاز کرسکتا ہے۔ اس صورت میں بھی کمزور دفاعی صلاحیت ہمیں مسائل سے دوچار کردے گی۔

المختصر پاکستان اس وقت کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن، ففتھ جنریشن وار اور پراکسی وار جیسی تمام عسکری مہمات میں گھرا ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کو اپنی سالمیت اور خود مختاری برقرار رکھنے اور اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے ایک مضبوط دفاعی قوت کی ہر دوسری چیز سے زیادہ ضرورت ہے۔ اندرونی و بیرونی ملک دشمن قوتیں پاکستان کو توڑنے کی ایک عرصہ دراز سے کوششوں میں ناکامی کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ عسکری طور پر مضبوط پاکستان کسی صورت بھی توڑا نہیں جاسکتا اور یہ ملک اس وقت تک نا قابل تسخیر رہے گا جب تک اسے بھی لیبیا کی طرح دفاعی طور پر کمزور نہ کر دیا گیا۔

میرے عزیز ہم وطنو ترقی اور خوشحالی کا وجود سالمیت اور خود مختاری سے جڑا ہوا ہے اگر آپ ناقابل تسخیر ہوں گے تو ہی آپ ترقی کر سکیں گے لیکن خدانخواستہ اگر آپ محکوم ہو جائیں گے تو غلامی کی زنجیر پھر سے گلے کا پھندا بن جائے گی۔ ہمیں اس ملک کے سب سے ذہین اور محب وطن وزیر اعظم محترم ذوالفقار علی بھٹو شہید کی بات کو پھر سے ذہن میں لانا ہوگا کہ "گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے" یعنی اپنا دفاع مضبوط کریں گے۔

پاکستان اس وقت بھی شدید خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ہمیں اپنی سالمیت، خودی، حمیت، آزادی اور خود مختاری کا ہر صورت دفاع کرنا چاہیے اور ہمیں سالمیت ارض مقدس کا سودا کسی بھی قیمت پر نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے اسلاف کا بھی یہی درس رہا ہے کہ اپنے دفاع کو ہرصورت مضبوط رکھا جائے اور اور کبھی بھی غلامی کی لعنت کو قبول نہ کیا جائے۔

اس بلاگ سے متعلق آپ کے تمام سوالات کے جواب دینے کے لیے راقم الحروف ہر وقت حاضر خدمت ہے آپ مجھے اپنے تحفظات اور سوالات میرے ای میل ایڈریس (hassang.bhm@gmail.com) اور میرے ٹویٹر اکاؤنٹ (786Hassani) پر ارسال کر سکتے ہیں۔

میں اپنی تحریر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کے اس مصرع پر کروں گا؛

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

اللہ رب العزت میرے وطن کو تاقیامت قائم و دائم رکھے اور خدا کرے کہ ارض پاک قیامت کی صبح ہونے تک ناقابل تسخیر رہے۔
مزیدخبریں