دوسروں کو اخلاقیات سکھانے والے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں

دوسروں کو اخلاقیات سکھانے والے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں
موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے کم و بیش تین سال ہو گئے ہیں البتہ حکومت کی ڈلیورنس کے حوالے سے تو عالمی اداروں سمیت گراؤنڈ پر موجود عوام کی دہائیاں ہی ان کی کارکردگی کو عمدہ طریقے سے بیان کر دیتی ہیں۔ البتہ اس فاشسٹ حکومت نے 3 سالوں میں نازی حکومت کی یاد نا صرف تازہ کی ہے بلکہ اس کا مقابلہ کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے! انتقام اور انا کی آگ میں سلگتے یہ برسر اقتدار افراد اخلاقیات کے دائرے سے اس حد تک نکل گئے ہیں کہ لوگوں پر ہاتھ اٹھا کر، گالی دے کر اس کو تنبیہہ کرتے ہیں کہ تم اخلاقیات میں رہو۔ تمہارے لئے اخلاقیات کے قوانین پاس کروا رہے ہیں جنہیں نہ مانا تو نہ صرف جیل جاؤ گے بلکہ تمہاری برادری کے خلاف بھی کاروائیاں کریں گے۔

پہلے اڈھائی سال یہ نشتر صرف حزب اختلاف کے نمائندگان پر چلتے رہے، کئی افراد کو ملک چھوڑنا پڑا، کئی جیل میں گئے اور کئی افراد مفاہمت کے نام پر خاموش ہو گئے۔ سیاست دانوں نے اپنی سیاست بچائی عوام کو سچائی کی راہ پر چلانے کی بجائے تاریک راہوں میں دھکیل کر خود پرسکون رہنے میں عافیت جانی تو میڈیا نے یہ علم بلند کر کے عوام میں شعور کی بیداری کا ٹھیکہ اٹھایا مگر سنسر شپ سے بات آگے نکل چکی تھی پھر حملے ہوئے، دھمکیاں ملیں اور اب ان حملوں کو قانونی رنگ دینے کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں۔

یوں تو حکومت نے بے تحاشہ کوشش کی کہ پیمرا کو ہی مکمل طور پر حکومت کے ماتحت کر لیں جب یہاں بات نا بنی تو میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے نام پر پیمرا ختم کر کے نیا ادارہ اور مسودہ منظور کروانے کی چہ مگوئیاں شروع کر دیں گئیں۔ گزشتہ 3 برس میں حکومت نے ٹی وی چینلز کو 265 ہدایت نامے جاری کئے گئے اس کے علاوہ 149 ایڈوائس بھیجیں گئیں ،564 شو کاز نوٹسز بھیجے گئےاور ایک چینل پر پیمرا کی جانب سے پابندی بھی عائد کی گئی۔29 پروگرامز پرپابندی عائد کی گئی ،3 چینلز کی نشریات معطل کی گئیں ،چینلز کو 43 بار وارننگز جاری کی گئیں مگر حکومت کہ لئے یہ سب کافی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک ابھی بھی پیمرا چینلز کو ہینڈل کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔

نئے قانون کی ساز باز کی کہانی جب میڈیا تک پہنچی تو واویلا ہوا۔ اسے ایک رات و رات آنے والے آرڈیننس سے تشبیہ دی گئی کہ ایک آرڈیننس کے تحت اس لئے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی بات ہو رہی کیونکہ اگر باقاعدہ قانون کو پاس کروانے کے لئے اسمبلی میں لایا گیا تو اس پر بحث ہو گی اور بحث میں بے شمار چیزوں سے پردہ اٹھے گا البتہ اس بات کی نفی حکومتی وزیر مملکت فرخ حبیب نے ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ میں کر دی کے آرڈیننس نہیں آئے گا۔

البتہ اس سے متعلق یہ چہ مگوئیاں ضرور برقرار رہیں کہ ایسے قانون کے تحت حکومت مخالف خبر دینے پر 3 سال کے لئے پابند سلاسل کیا جائے گا اور دہشت گردوں سے بھی بدتر سمجھ کر انہیں ہائیکورٹ میں اپیل کا حق بھی نہیں دیا جائے گا مگر اس سے متعلق کسی حکومتی شخصیت نے تصدیق نہیں کی، البتہ سینئر صحافیوں نے اس طرح کے اقدامات پر تحریک انصاف اور عمران خان کو ان کی پارٹی کی بنیاد کا مقصد سمجھایا۔ سینئر صحافی مظہرعباس نے بتایا کہ عمران خان نے ان سے بات کرتے یہ خود کہا تھا کہ1995 میں شوکت خانم کی مہم کے دوران جب ان کووزیر اعظم بینظیر سے ملنا تھا تو وہ میٹنگ میں مصروف تھیں تو ان کی ملاقات آصف علی زرداری سے ہوئی انہوں نے عمران کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی اور کہا کی ہم آپ کو پی ٹی وی پر شو دلوا دیں گے تو عمران نے صحافی مظہر عباس کو کہا میں نے سوچا کہ پی ٹی وی تو ریاست کا چینل ہے اس پر حکومت کو یوں کنٹرول نہیں رکھنا چاہئیے ۔ صحافی مظہر عباس نے یہ بات یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اب عمران خان کو اپنے اقتدار میں یہ باتیں سوچنی چاہیئں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

فواد چوہدری سے فردوس عاشق اعوان، فردوس عاشق سے شہباز گل اور فیاض چوہان تک پچھلے تین سالوں میں میڈیا اخلاقیات  (میڈیا ایتھکس) پر صحافیوں کو بھاشن جھاڑتے رہے ہیں جبکہ ان کے اپنی بدتہذیبوں پر مشتمل روائیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ ’ہاتھ چلاقیوں‘ پر مبنی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ جب حکومت کا سربراہ جو کہ ان تمام نمونوں کے لئے مشعل راہ اور نیلسن منڈیلا سے بڑا لیڈر ہے، اس نے  بدتہذیبی پر مبنی بیانات کئی بار نا صرف خود دئیے بلکہ اس کے دفاع میں مخالفین کی مزید دل آزاری اور اشتعال دلانے کی کوشش کی ہے۔

یوں تو عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد  میں کئی یوٹرن لئے ہیں جن کی گنتی شاید ممکن نہیں مگر ہاں البتہ ایک بات ایسی ہے جس پر وہ مستقل مزاجی سے عمل پیرا ہیں وہ اپنے مخالفین کی تضحیک کرنا ہے جو کنٹینر سے شروع ہوئی اور ایوان وزیر اعظم میں وزیر اعظم کی مسند پر بھی جاری ہے جس میں کسی کی صنف سے متعلق مذاق ہو جیسا کہ بلاول بھٹو سے متعلق ان کے لہجے کو لے کر بھری محافل و تقریب سمیت قومی اسمبلی تک میں ان کی نقل اتاری گئی اور وزراء نے زو معنی جملے کسے جس میں خود کو سب سے سینئر سیاست دان کہنے والے وزیر داخلہ شیخ رشید ہوں یا کوئی اور۔ اسی طرح خواتین کے معاملے میں عائشہ گلالئی ہوں یا ناز بلوچ ان کے تحریک انصاف کو چھوڑنے پر دئیے رد عمل کو دیکھیں تب انسان کا سر چکرا جاتا ہے جو شخص یہ کہتا نہیں تھکتا کہ میں ریاست مدینہ کا ماڈل بناؤں گا اور مغرب کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا اس کی سوچ اس حد تک تعصب اور کم ظرفی پر محیط ہے۔

وزراء جو کہ خان صاحب کو اپنے لئے مشعل راہ مانتے ہیں وہ ان سے چار ہاتھ آگے ہیں انہوں نے لفظی بدتہذبی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ہاتھ چلاکی کو اپنی دلیل بنا کر جب چاہا جہاں چاہا اٹھا دیا۔ ایک طویل لسٹ میں چیدہ چیدہ نام اور مثالیں کچھ ایسے ہیں کہ مرحوم نعیم الحق نے لائیو شو میں دانیال عزیز کو تھپڑ جڑ دیا تھا۔ شہریار آفریدی نے بھی طلعت حسین کے پروگرام میں ہاتھا پائی کی ، فواد چوہدری نے تو سیاسی مخالفین کی بجائے دو صحافیوں کو ہی تھپڑ رسید کر دئیے جن میں مبشر لقمان اور سمیع ابراہیم شامل ہیں جبکہ یہ دونوں وہ صحافی ہیں جن کو 2014 میں تحریک انصاف کے دھرنوں میں کنٹینر تک پر دیکھا گیا تھا جبکہ شہباز گل اور فیاض چوہان ان مشیروں میں شامل ہیں جن کی بدتہذیبی کے نشتر سے کوئی محفوظ نا رہا حالانکہ ان کو اس کے رد عمل کے طور پر عوامی سطح پر کئی بار تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا جیسا کہ حال ہی میں شہباز گل کے لاہور ہائیکورٹ پیشی پر ان پر انڈے برسائے گئے اور سیاہی پھینکی گئی اور اب گزشتہ دنوں فردوس عاشق اعوان نے جو کہ دن رات میڈیا کو استعمال کر کے اپوزیشن کو کرپٹ ہونے کا طعنہ دیتی ہیں ان کو جب پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی مندوخیل نے بسوں کے اسکینڈل میں کرپشن کرنے والا کہا تو انہوں نے پروگرام میں ان کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا اور بدتہذیبی کے نشتر بھی برسائے۔

یہ سلسلہ وزیر اعظم عمران خان کی لفظی گولہ باری سے شروع ہوتا  ہوا وزراء کے ہاتھ اٹھانے تک نہیں رکا بلکہ عام عوام میں تحریک انصاف کی سوچ پر مبنی جذباتی کارکنوں نے اس کو باقاعدہ حملہ آور ہونے کی نہج پر پہنچا دیا جس میں حال ہی میں شاہد خاقان عباسی اور محمد زبیر پر ہونے والا حملہ ہو یا سابق وزیر اعظم نواز شریف پر جوتا اچھالنے کا معاملہ، خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنا ہو ، احسن اقبال کو گولی مارنا ہو یا اس طرح کہ مزید ان گنت واقعات ۔۔۔۔ یہ سب بحیثیت قوم ہماری تربیت اور عدم برداشت کو ظاہر کرتے ہیں۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@