تفصیل کے مطابق صحافیوں کو ایف آئی اے کی جانب سے ہراساں کرنے کے خلاف کیسز میں ایف آئی اے کے بیان پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ یا دیگر سے پوچھا ہے کہ وہ صحافی سمیع ابراہیم کے بیان سے اشتعال میں آگئے ہیں۔
اس کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے روکنے کے حکم میں 21 جون تک توسیع کر دی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے صحافی سمیع ابراہیم کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے سمیع ابراہیم کو ہدایت کی کہ وہ ایف آئی اے کے پاس چلے جائیں اور اپنا بیان ریکارڈ کرا دیں۔
ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ سمیع ابراہیم نے ایک ویڈیو میں پوری عوام کو اداروں کے خلاف کھڑا ہونے کا پیغام دیا اور وہ آرمی چیف کو اشتعال دلا رہے ہیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا یہ اشتعال کس کو دلا رہے ہیں، یہ تو بتا دیں جرم کہاں بنتا ہے؟ جس پر ایف آئی اے حکام نے کہا کہ یہ آرمی چیف کو اشتعال دلا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ نے ان سے پوچھا ہے کہ وہ کیسے اشتعال میں آگئے؟ کیسے کوئی ان کو اشتعال دلا سکتا ہے؟
عدالت نے بتایا کہ جو کچھ سمیع ابراہیم نے کہا صحافتی آداب کے خلاف ہو سکتا ہے۔ جرم کیسے بن گیا؟ آپ اخلاقی پالیسی تو نہیں بنائیں گے بلکہ آپ نے ایک ذمہ دار ایجنسی کا کردار ادا کرنا ہے اور جو دلائل آپ اس کیس میں دے رہے ہیں اس پر کوئی جرم نہیں بنتا۔
وکیل سمیع ابراہیم نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے جواب میں کہا ہے کہ آئین، آرمڈ فورسز کا احترام کرتے ہیں ، پی ایف یو جے کے ساتھ ایف آئی اے کنسلٹ کر لے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ کو لگتا ہے جو کہا گیا کیا پی ایف یو جے اس کو سپورٹ کرے گی ؟
ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ سمیع ابراہیم نے فوج اور عوام کو اشتعال دلانے کی کوشش کی ہے، جس پر چیف جسٹس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسی باتوں سے اداروں کو اشتعال نہیں دلایا جا سکتا۔
عدالت نے ایف آئی اے حکام سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ اگر صحافی نے لحاظ نہیں کیا یا لاپرواہ بھی تھا تو یہ سب جرم کیسے بن گیا؟ ایف آئی اے کی باتوں سے نہیں لگتا کہ کوئی جرم سرزد ہوا ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 21 جون تک ملتوی کردی۔