تاہم ان کے خاندان کی جانب سے ان خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف گذشتہ 3 ہفتوں سے شدید علیل اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کی ریکوری کے کوئی چانس نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو وینٹی لیٹر پر نہیں رکھا گیا ہے۔
پرویز مشرف کے ٹویٹر اکائونٹ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کے تمام اعضاء نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کا کئی ہفتوں سے ہسپتال میں علاج چل رہا ہے۔ ان کی صحتیابی کی تمام امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ ان کو مصنوعی تنفس کے سہارے زندہ رکھنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔
خیال رہے خبریں زیر گردش تھیں کہ سابق صدر پرویز مشرف کی حالت بہت بگڑ چکی ہے۔ ان کو ڈاکٹروں کی جانب سے وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا ہے جبکہ سوشل میڈیا نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ان کی رحلت کی خبریں چلانا شروع کر دیں جو کہ جعلی ہیں۔
https://twitter.com/P_Musharraf/status/1535238352387063814?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1535238352387063814%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.thefridaytimes.com%2F2022%2F06%2F10%2Ffact-check-is-pervez-musharraf-on-ventilator%2F
پرویز مشرف کے خاندان نے سب سے پہلے 2018ء میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ amyloidosis نامی بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ان کی جماعت کے رہنما افضال صدیقی نے بتایا تھا کہ پرویز مشرف کا اعصابی نظام انتہائی کمزور ہو چکا ہے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو بحیثیت آرمی چیف چیف وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں گرفتار کر لیا تھا اور ایک متنازع ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد صدر منتخب ہو گئے تھے۔
بعد ازاں اسمبلیوں نے بھی اس فیصلے کی توثیق کر دی تھی۔ تاہم 9 سال بعد مشرف فوج کے سربراہ کے عہدے سے 28 نومبر 2007ء کو سبکدوش ہو گئے اور اس وقت دبئی میں مقیم ہیں۔
پرویز مشرف 11 اگست 1943ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1964ء میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں وہ شریک ہوئے۔ جبکہ 7 اکتوبر 1998ء کو بری فوج کے چیف آف سٹاف کے منصب پر فائز ہوئے۔