وکلا کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئیے کہ ان کا منصب یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے پیشے کے وقار اور اعلیٰ مقام کے ساتھ ساتھ اس کے ممبر کی حیثیت سے اپنے وقار اور بلند مقام کو ہر وقت برقرار رکھیں۔ وکلا کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان کا ملکی معاملات پر مؤقف ان کی اکثریتی برادری کی تائید رکھتا ہو۔ اگر کوئی وکیل انفرادی طور پر یا ایک گروہ کی شکل میں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی الحاق رکھتا ہے تو اس کو ان کے پروگرام میں شرکت کے وقت کبھی بھی وکلا برادری کے مؤقف کا تاثر دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئیے۔
بارز تو انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ غیر جانبداری، شفافیت اور انصاف کے اصولوں پر عمل درآمد کروانے کی تاریخ ان کا ورثہ ہے۔ بارز تو انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کو فریڈم ایوارڈز دیتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کی بحالی کا سہرا ان کے سر ہے۔ ہر زمانے کے آمروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ان کی پہچان رہی ہے۔ وکلا کو کبھی نہیں بھولنا چاہئیے کہ ان کی اصل طاقت ان کی یکجہتی، خودداری، استقامت اور آئین و قانون کی پاسداری ہے جس نے نظام انصاف کو ان کی ڈھال بنایا ہوا ہے۔ بار ایسوسی ایشنز اور کونسلز وکلا کی نمائندہ تنظیمیں ضرور ہیں مگر ان کے لئے بھی کوئی مؤقف اپنانے سے پہلے برادری کی تائید حاصل کرنا ضروری ہے۔
آج وکلا جو کچھ کر رہے ہیں اس سے پوری برادری بدنام ہو رہی ہے۔ کیا وکیل کا یہ معیار رہ گیا ہے کہ وہ سیاست دان اور جج کے درمیان رابطے کے پل کے طور پر استعمال ہو رہا ہو۔ سیاست دانوں کے غلط کاموں کو تحفظ فراہم کر کے سیاست، جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی راہ کی رکاوٹ بن کر بدنامی کا سبب بن رہا ہو۔
رابطوں یا تعلقات کا ہونا کوئی بری بات نہیں مگر ان کا استعمال سیاست کے لئے اس طرح سے ہونا جس سے وکلا برادری کی اجتماعی پہچان اور مفادات متاثر ہوں، ٹھیک نہیں ہے۔ جو وکلا سیاست کرنا چاہتے ہیں وہ ضرور کریں یہ ان کا بنیادی حق ہے مگر وہ اس کے لئے وکلا برادری کے نام کو استعمال نہ کریں بلکہ وہ اپنے آپ کو سیاسی جماعت کے ایک ونگ کے طور پر رجسٹرڈ کروائیں اور جب بھی وہ کسی سیاسی مقصد کے لئے ہڑتال یا مظاہرے کا حصہ بنیں تو انہیں سیاسی ونگ کا نام استعمال کرنا چاہئیے، نا کہ وکلا کی تنظیم کے طور پر۔ اس سے ان وکلا کی پہچان پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک غیر جانبدار تنظیم اور سوچ کے حامی ہوتے ہیں۔
اس وقت صورت حال یہ بن چکی ہے کہ کسی بھی جماعت کا کوئی بھی دھرنا ہو یا احتجاج، اس میں وکلا بھی پہنچے ہوتے ہیں اور یہ ظاہر کیا جا رہا ہوتا ہے کہ وکلا اس مطالبے یا احتجاج کا حصہ ہیں اور ان وکلا کے الحاق کے پیچھے ان کے نظریاتی مقاصد سے زیادہ ذاتی مقاصد ہوتے ہیں جن میں سرکاری عہدوں کا حصول ہوتا ہے۔ اب یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ جس سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے وہ آتے ہی سب سے پہلے تمام عدالتوں میں اٹارنیز، ایڈووکیٹ جنرلز اور پراسیکوشن کے عہدوں پر تعینات افراد کو تبدیل کر کے اپنی جماعت کے وکلا ونگ میں سے لوگوں کو تعینات کرتے ہیں اور پھر وہ ان کے سیاسی کاز کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں۔ الحاق، ہمدردیاں اور تعلقات اپنی جگہ مگر ان کی بنیاد پر نظام انصاف کو استعمال کرنے کی تو قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہئیے۔
اس میں بار ایسوسی ایشنز کی بھی ذمہ داری بنتی ہے اور خاص کر ان وکلا کی جن کی کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں ہوتی۔ انہیں چاہئیے کہ وہ بارز کی سیاست سے سیاسی جماعتوں کے غالب اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو وکلا کے اجتماعی مفادات اور مسائل پر کام کو ترجیح دیں۔ جو منتخب ہونے کے بعد کسی خاص جماعت یا گروہ کے مفادات کے لئے کام نہ کریں بلکہ وکلا برادری اور انصاف کا فروغ ان کی ترجیح ہو۔
بار ایک ایسا ادارہ ہے جو وکلا کی تربیت کا کام سر انجام دیتا ہے۔ ان بار ایسوسی ایشنز کی قیادت کرنے والے بعد میں بڑے بڑے آئینی عہدوں پر پہنچتے ہیں اور وہاں آئینی اور قانونی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ لہٰذا بارز کی سیاست سے یہ تاثر ملنا چاہئیے کہ وہاں کی قیادت سے ابھرنے والے افراد غیر جانبدار، شفاف، انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا ایک عملی نمونہ ہوتے ہیں۔ تا کہ وکلا برادری کے بارے معاشرے میں ایک مثبت تاثر بنے اور یہ کہا جائے کہ جہاں بھی انصاف کی فراہمی مقصود ہو وہاں وکلا میں سے تعیناتیاں کی جائیں چہ جائے کہ جس طرح آج اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ججز چونکہ وکلا میں سے آتے ہیں اور ان کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ الحاق ہوتے ہیں لہٰذا یہ ان آئینی عہدوں پر بیٹھ کر انصاف کی فراہمی میں غیر جانبداری اور شفافیت کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟
بلکہ آج کل ججز کی تعیناتیوں کے عمل کو نظام انصاف پر اٹھنے والا سب سے اہم سوال سمجھا جا رہا ہے اور یہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ اس طریقہ کار کو بدلا جائے۔
بار ایسوسی ایشنز کو تو چاہئیے کہ اس طرح کے لوگوں کا انتخاب کریں جن کو ان آئینی عہدوں کی خواہش نہ ہو بلکہ وہ اپنی بارز کی قیادت کی حیثیت کو ان آئینی عہدوں سے زیادہ معتبر سمجھتے ہوں اور ان کے اندر اپنی پوری برادری کے اجتماعی مفادات اور انصاف کی فراہمی کے عمل میں غیر جانبداری، شافیت اور انصاف کے اصولوں کی پیروی پہلی ترجیح ہو۔ اور وہ یہ سمجھتے ہوں کہ وہ ایک ایسی برادری کی نمائندگی کرتے ہیں جو اس معاشرے کے باشعور اور آئین و قانون کو سمجھنے والا طبقہ سمجھے جاتے ہیں اور ان کے شعبہ کے لحاظ سے اس ملک میں انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لئے کوشش ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری اور فرض ہے۔ بلکہ وکلا بارز اور تنظیموں کے اندر ریسرچ کی کمیٹیاں ہونی چاہئیں جو ہماری سیاست، معاشرت اور نظام انصاف کو درپیش مسائل کی تحقیق پر کام کریں اور اس پر اپنی اجتماعی قانونی آرا کی روشنی میں سفارشات مرتب کر کے اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمان کو بھیجیں جن کو ایک دانشمندانہ رائے کے طور پر لیا جاتا ہو۔
جب بارز ایسوسی ایشنز کو معاشرے اور عدالتی نظام کے اندر اس طرح کا مقام مل جائے گا تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ان کا منتخب نمائندہ کسی جج، اٹارنی یا ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے میں کوئی کشش محسوس کرے گا۔
میری بار کونسلز اور وزیر قانون سے گزارش ہے کہ اصلاحات لائی جائیں کیونکہ اپنی ذاتی خواہشات اور پسند نا پسند کی بنیاد پر پوری برادری کی پہچان کو خراب کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا اور نا ہی اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ جو بھی یونیفارم پہن کر وکیل کے منصب کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اس کے خلاف ڈسپلنری ایکشن ہونا چاہئیے۔ یونیفارم صرف عدالت میں ایک لا آفیسر کے طور پر پیش ہونے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وکلا کی خدمات کو عدالتوں کے بجائے وہاں پر استعمال کیا جائے جہاں پر تنازعات اور قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ وکلا اپنے دائرہ پریکٹس کو محض عدالتوں کے بجائے نچلی سطح پر بھی رائج کریں۔
ججز کے رشتہ داروں، دوستوں اور ان کی لا فرمز کے فیلوز کو ججز کے سٹیشنز پر پریکٹس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئیے۔
وکالت کو سیاست زدہ ہونے سے بچانا ہو گا۔ جرنیل سیاست زدہ ہوا تو اس کی عزت گئی، جج سیاست زدہ ہوا تو اس کا مقام ختم ہوا اور اگر وکیل بھی سیاست زدہ ہو گا تو اس کا مقام بھی ختم ہو جائے گا۔ جب کوئی شعبہ ایک دفعہ عوام کی نظروں میں اپنا مقام کھو بیٹھے تو پھر معاشرتی اصلاح میں اس کا کردار محدود ہو جاتا ہے۔ ہمیں ہر صورت اپنے اداروں کو سیاست زدہ یا سیاست گرد ہونے سے بچانا ہو گا۔
مانا کہ وکیل آزاد ہیں مگر اتنے آزاد بھی نہیں کہ کالا کوٹ پہن کر مجرموں کو ہار پہناتے پھریں۔ کالا کوٹ انصاف کی علامت ہے اور انصاف کبھی بھی جانبدار، غیر شفاف اور اصولوں کے خلاف نہیں ہو سکتا۔