تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے شہر سٹاک پورٹ میں مقیم 52 سالہ ثمینہ اور 48 سالہ نازیہ اقبال ہم جنس پرست ہیں اور انہوں نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔ برطانوی عدالت نے دونوں بہنوں کی درخواست کو مسترد کر دیا جس کے بعد انہیں پاکستان ڈی پورٹ کرنے کا عمل شروع ہوا۔
تاہم، سکائی نیوز کی جانب سے معاملے کو اجاگر کرنے کے بعد دونوں ہم جنس پرست بہنوں کو پاکستان ڈی پورٹ کرنے کا عمل روک کر آخری موقع دیا گیا ہے۔ سکائی نیوز نے انتظامیہ سے پوچھا ہے کہ دونوں بہنوں کو ایک ایسے ملک میں کیوں بھیجا جا رہا ہے جہاں ہم جنس پرستی کی اجازت نہیں اور ہم جنس پرستی کی وجہ سے دونوں بہنوں کی جان کو شدید خطرہ ہو سکتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ہوم ڈیپارٹمنٹ نے دونوں بہنوں کو پاکستان بھیجنے کے فیصلے پر عملدرآمد روک دیا ہے۔
نازیہ اور ثمینہ کا کہنا ہے کہ انہیں برطانیہ میں بھی پاکستان سے دھمکیاں ملتی رہتی ہیں اور اگر انہیں پاکستان بھیج دیا گیا تو ان کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہوگا۔
واضح رہے کہ دنوں بہنوں کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ساہیوال سے ہے۔ بہنوں کا کہنا ہے کہ 20 سال قبل انہیں احساس ہوا کہ ان کے جنسی رحجانات دوسروں سے مختلف ہیں۔ والدین کی وفات کے بعد انہیں دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں اور وہ ملک چھوڑ کر برطانیہ آ گئیں۔
دونوں بہنوں کو پناہ نہ دینے کے حوالے سے برطانوی حکام نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان میں ہم جنس پرستی غیر قانونی ہونے کے باوجود ہم جنس پرستوں کے گروہ موجود ہیں اور وہ وہاں محفوظ بھی ہیں، اس لیے ان بہنوں کی پناہ کی درخواست مسترد کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ برطانوی ہوم آفس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2016 سے 2019 تک 2000 سے زائد پاکستانیوں نے ہم جنس پرست ہونے کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔
ہوم آفس کی رپورٹ کے مطابق درخواست جمع کرانے والوں میں گے، لیزبین، بائے سیکشوئل اور جنس تبدیل کرانے والے مرد و خواتین شامل ہیں۔ پناہ کی ان درخواستوں میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ انہیں برطانیہ میں رہنے کا حق دیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق کسی بھی مسلمان کیمونٹی کی جانب سے یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد ایک اور اسلامی ملک بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں جن کی تعداد 800 کے قریب ہیں۔
ان درخواست گزاروں نے ہوم آفس کے سامنے موقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ وہ ہم جنس پرست ہیں یا ان کا تعلق ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے ہے اور واپس اپنے ملک جانے کی صورت میں ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اس لیے انہیں برطانیہ میں مستقل قیام کی اجازت دی جائے۔
ہوم آفس کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تقریبا 1200 پاکستانی مرد وخواتین کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں کیونکہ وہ اپنا دعوی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔