ادھر پاکستان میں پارٹی کی عملاً قیادت مریم نواز نے سنبھال لی ہے جو نہ صرف پارلیمنٹ میں بلکہ پارلیمنٹ سے باہر موجود پارٹی کے مرکزی رہنماؤں، بالخصوص اپنے ہم خیال گروپ میں شامل پارٹی اکابرین کو باقاعدگی سے پالیسی گائیڈ لائن دے رہی ہیں۔ اس صورتحال میں پارٹی صدر شہباز شریف سخت بےبس اور لاچار دکھائی دے رہے ہیں جن سے پارٹی قائد نواز شریف اس لئے ناراض ہیں کہ جن شرائط اور یقین دہانیوں پر وہ پاکستان چھوڑنے پر راضی ہوئے تھے ان کی تکمیل کے حوالے سے وہ ناکام رہے ہیں۔ خاص کر مریم نواز کے جنوری تک لندن پہنچ جانے کی یقین دہانی پوری نہیں ہوئی جبکہ دوسرا فریق بھی شہباز شریف سے اس بنا پر نالاں اور مایوس ہے کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی اور بھتیجی مریم نواز کو سیاست سے دور رکھنے کی جو یقین دہانی مقتدر حلقوں کو کروائی تھی، اس حوالے سے وہ ڈلیور نہیں کر پائے، بلکہ نواز شریف کے لندن پہنچ جانے کے بعد ان کی اور ان کے بچوں کی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔
حسین نواز گذشتہ کچھ عرصے سے سیاسی طور پر غیر معمولی حد تک سرگرم بتائے جاتے ہیں، جو سفارتی رابطوں سے لے کر غیر ملکی اہم شخصیات کے ساتھ نواز شریف کی ملاقاتوں تک، عالمی اثر و رسُوخ استعمال میں لانے کے تمام تر امور خود انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں مقتدر حلقوں میں حسین نواز کی غیر معمولی پیش قدمی اور حسین نواز کے توسط سے جلاوطن سابق وزیراعظم کی سیاسی سرگرمیوں کو سخت ناپسندیدگی کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔
یہاں تک کہ پاکستان کی "ڈیپ سٹیٹ" یعنی ملکی سیاست میں فیصلہ کن کردار کی حامل قوتوں نے ان کی ناپسندیدہ سرگرمیوں کی بنا پر ہمیشہ کے لئے پاکستان سے باہر رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق “ڈیپ سٹیٹ" نے انٹیلی جنس رپورٹوں، بالخصوص پاکستانی سیاسی شخصیات کے بیرون ملک رابطوں، ملاقاتوں اور خفیہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے قائم اعلیٰ ترین انٹیلی جنس ایجنسی کے سپیشل مانیٹرنگ سیل سے موصول ہونے والی رپورٹس کی روشنی میں نواز شریف اور حسین نواز کی سرگرمیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مقتدر حلقوں میں سابق وزیراعظم کی لندن کے حالیہ قیام کے دوران سرگرمیوں، بالخصوص "را" اور امریکی سی آئی اے سے جڑی شخصیات کے ساتھ ان کے مبینہ رابطوں کو ریاست مخالف سرگرمیوں سے تعبیر کرتے ہوئے ناقابل قبول قرار دیا جا رہا ہے اور انہیں ایم کیو ایم کے بانی کی طرح مستقل طور پر ملک سے باہر ہی رکھنے کے لئے کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کے نئے سربراہ واجد ضیا کی قیادت میں ادارے کی ایک خصوصی ٹیم اسی مقصد کے لئے لندن گئی ہے جو شریف فیملی کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے مبینہ ٹھوس شواہد برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو فراہم کرے گی اور کوشش کرے گی کہ نیشنل کرائم ایجنسی نوازشریف کی نقل و حرکت اسی طرح محدود کر دے جس طرح اس نے لندن ہی میں مقیم بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی کر رکھی ہے اور لندن میں سابق وزیراعظم کے رابطوں اور سرگرمیوں کی اسی طرح کڑی نگرانی کی جائے جیسی الطاف حسین کی ہو رہی ہے۔
اس سلسلے میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کا کردار بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ایک قانونی پراسیس کے ذریعے الطاف حسین کے گھٹنے میں ایک chip فٹ کر دی ہے جس کے ذریعے 24 گھنٹے ان کی مانیٹرنگ کی جاسکتی ہے۔ اس مخصوص چپ کی مدد سے نہ صرف ان کی نقل و حرکت، رابطوں اور ملاقاتوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے بلکہ ان کی گفتگو بھی براہ راست سنی جا سکتی ہے، حتیٰ کہ اگر وہ کسی بھی طرح سے یہ chip نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا بھی بروقت پتہ چل جائے گا۔ ذرائع کے مطابق بانی ایم کیو ایم کو صبح 9 سے رات 9 بجے تک اپنے گھر تک ہی محدود رہنے کی ایڈوائس دی گئی ہے۔