الیکشن کمیشن میں فیصل واوڈا کی نااہلی کے لیے دائر درخوست میں درخواست گزار کے وکیل جہانگیر جدون نے الیکشن کمیشن کے سامنے موقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں فیصل واوڈا نے جھوٹا حلف نامہ جمع کیا تھا. انھوں نے موقف اپنایا کہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے بعد دوہری شہریت چھوڑی گئی اور کسی بے ایمان شخص کو پارلیمنٹ کا ممبر کیسے بنایا جاسکتا ہے.
الیکشن کمیشن میں ممبر پنجاب الطاف ابراہیم قریشی کی سربراہی میں چار رکنی الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت کی جبکہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ آج بھی سماعت کا حصہ نہیں.
الیکشن کمیشن میں فیصل واووڈا نے اپنا وکیل تبدیل کر لیا ہے اور الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے. فیصل واوڈا نے موقف اپنایا کہ گزشتہ سماعت پر میری والدہ بیمار تھیں اور اپنی والدہ کا میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی لیکر آیا ہوں. جس پر الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا کہ آپ معزز رکن اسمبلی ہیں آپکی بات پر یقین ہے.
فیصل واوڈا کے وکیل نے موقف اپنایا کہ مجھے کل ہی مقرر کیا گیا تیاری کیلئے وقت دیا جائے جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ان کو وقت دینے کی ضرورت نہیں جس پر الیکشن کمیشن نے درخواست گزار کے وکیل کو روکتے ہوئے کہا آپ کو جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں تحمل کریں.
درخواست گزار نے فیصل واڈا سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم نامہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ فیصل واڈا کا سینیٹر بننے کا نوٹیفکیشن روکا جائے.
درخواست گزار کے وکیل جہانگیر جدون نے الیکشن کمیشن کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں متفرق درخواستیں دیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصل واوڈا کے بیان حلفی کو جھوٹا قرار دیا. وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن سے فیصل واڈا نے دوہری شہریت چھپائی اس لئے فیصل واڈا آرٹیکل 63 ون سی پر پورا نہیں اترتے اور ان کا ممبر بننا اس کے خلاف ہے. وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ نے جھوٹے بیان حلفی کا معاملہ کمیشن کو بھجوایا ہے اور عدالت نے قرار دیا کہ بادی النظر میں فیصل واووڈا کا بیان حلفی جھوٹا ہے. انھوں نے مزید کہا کہ فیصل واووڈا ہائی کورٹ میں بھی وکیل تبدیل کرتے رہے اور وکیلوں کی تذلیل کرتے ہیں.
الیکشن کمیشن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فیصل واووڈا کی موجودگی کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جس پر فیصل واوڈا نے الیکشن کمیشن کے سامنے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانونی نہیں سیاسی کیس ہے کاغذات نامزدگی میں بہت سی تکنیکی چیزیں ہیں میں ایک عام آدمی ہوں اور قانون کو اتنا نہیں سمجھتا.
الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا سے انکے 2018 عام انتخابات کے کاغذات نامزدگی سے متعلق سوالات کئے اور پوچھا کہ کیا آپ نے خود فارم نہیں بھرے تھے یا آپ سوالات کے جوابات نہیں دینا چاہتے جس پر فیصل واوڈا نے جواب دیا کہ میں قانون کو نہیں سمجھتا اور یہ ایک سیاسی کیس ہے، جو میرے مخالف وکیل نے باتیں کیں وہ بے بنیاد ہیں. فیصل واوڈا کے جواب پر الیکشن کمیشن نے ان کو ٹوکتے ہوئے موقف اپنایا کہ آپ ہمارے سوالات کے جوابات دیں جو آپ سے پوچھا جارہا ہے ان کا جواب دیں جس پر فیصل واوڈا نے دوبارہ موقف اپنایا کہ میں ایک عام آدمی ہوں مجھے قانون کا نہیں پتہ ، جس پر الیکشن کمیشن کے ممبر پنجاب الطاف ابراہیم قریشی نے موقف اپنایا کہ آپ ایسی بات نہ کریں آپ رکن پارلیمنٹ ہیں.
فیصل واوڈا نے الیکشن کمیشن سے استدعا کی کہ اگلی تاریخ دیدیں مکمل جواب دینگے. الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ اگلی سماعت پر آئیں گے جس پر فیصل واوڈا نے جواب دیا کہ آپ سو بار بلائیں میں آؤنگا.
الیکشن کمیشن نے سوال کیا کہ کیا آپ نے کاغذات نامزدگی فارم خود نہیں بھرا تھا یا آپ سوالات کے جوابات نہیں دینا چاہتے جس پر فیصل واوڈا نے دوبارہ موقف اپنایا کہ میری کیس کے حوالے سے تیاری نہیں ہے مجھے وقت دیا جائے.
الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو خود تحریری طور پربیان حلفی کے ساتھ جواب جمع کرانے کے احکامات جاری کریں.
الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کا سینیٹر شپ کا نوٹیفیکشن روکنے کی استدا مسترد کرتے ہوئے فیصل واڈا کے خلاف کیس کی سماعت 18 مارچ تک ملتوی کردی.