اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف پی بی اے سمیت دیگر صحافتی تنظیموں کی درخواستوں پر سماعت کی۔
ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے پیش ہوکر بتایا کہ تین سال میں دو لاکھ 44 ہزار شکایات درج ہوئیں ہیں، جن میں سے سیکشن 20 کے تحت 94 ہزار شکایات ہیں لیکن سیکشن 20 کے تحت کوئی گرفتاری نہیں کی، سیکشن 20 کے ساتھ دیگر سیکشنز کا اضافہ ہو تو گرفتاری ہوتی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ٹی وی پروگرامز پیکا 20 کے تحت نہیں آتے، محسن بیگ کی ایف آئی آر اختیارات کے غلط استعمال کا کلاسک کیس ہے ، کیوں یہ اختیار صرف پبلک آف ہولڈر کو فائدہ پہنچانے کے استعمال کیا جارہا ہے، پبلک آفس ہولڈر جو شکایت درج کراتا ہے کیا یہ گرفتاری سے انکار کر سکتے ہیں، محسن بیگ نے جو کچھ کہا یہ بتائیں کہ اس پر کون سی دفعہ لگتی ہے؟، ہو سکتا ہے کہ کتاب میں وزیر کے بارے میں اچھی باتیں لکھی گئی ہوں، ایف آئی آے نے فرض کرلیا کہ وہاں کچھ غلط ہی لکھا گیا ہے اور انکوائری کے بغیر اسی روز بندے ہو گرفتار کر لیا، آپ نے یہ سارا تجزیہ کیا کمپلینٹ فائل ہونے سے پہلے ہی کر لیا تھا؟ شکایت کرنے والا خود وزیراعظم کو defame کر رہا ہے، اس کتاب میں کوئی اچھی چیز بھی لکھی گئی ہو گی، جن کا ذہن خراب ہے وہ کتاب کے اس پیج کی غلط تشریح کرے گا، آپ اس ملک کو کدھر لے جانا چاہ رہے ہیں کہ کوئی تنقید نا ہو، آپ نے جو ترمیم کی ہے اس میں کل سی ڈی اے شکایت کردے کہ کسی نے کیوں کہا ہے سی ڈی اے میں کرپشن کیوں ہے، دنیا ڈی کرمنالائزیشن کی طرف جارہی ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ میں اس ایشو پر وزیراعظم سے بھی ملا ہوں، جب یہ آرڈی نینس آیا تو پتہ چلا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، میں نے وزیر اعظم کے سامنے تین چار ایشو اٹھائے ، سول لا کا کافی اسکوپ موجود ہے جہاں ادارے جا سکتے ہیں، میری رائے کے مطابق نیچرل پرسن کی تعریف اور ٹی وی کو پیکا کے تحت ریگولیٹ کرنے کی ضرورت نہیں، میرے خیال سے یہ ترمیم برقرار نہیں رہ سکتی، بغیر ایس او پیز کے تحت پیکا 20 پر مکمل عمل ہو گا، میڈیا کے تمام نمائندگان اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، وزیر اعظم نے مجھے کہا یہ کیسے ہوا ہے ؟ میں نے کہا یہ ہماری غلطی ہے۔
اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کردیا کہ حکومت پیکا ترمیمی آرڈیننس کے تناظر میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے لیے تیار ہے، ایک کمیشن بنے گا جس کی سفارش کے بغیر کارروائی نہیں چل سکے گی، سابق ہائی کورٹ کے جج ، سول سوسائٹی ممبرز رکھ کر ایک فورم بنایا جا سکتا ہے، وزیراعظم کو بتایا کہ ترمیمی آرڈی نینس سے کچھ چیزیں تو واپس ہوں گی، ہم پی ایف یو جے، سی پی این ای اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی آن بورڈ لیں گے، عدالت کا حکم موجود ہے، ترمیمی آرڈی نینس کے تحت کوئی کیس پراسیس نہیں ہو گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی پبلک فیگر کرمنل Defamation کا سہارا نہیں لے سکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کہا جائے پبلک آفس ہولڈر نے ملک کو تباہ کردیا ساتھ کہہ دے اس کی بیٹی بھاگ گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب کیوں کسی کو بھی سوشل میڈیا سے پریشان ہونا چاہیے، تمام سیاسی جماعتیں اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کو Encourage کرتی ہیں، اگر سیاسی جماعتیں اپنے فالورز کو روک دیں جو کچھ سوشل میڈیا پر ہورہا ہے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یورپ کی بات کریں تو وہاں سزائے موت ختم ہو گئی، پھر کیا ہم بھی ختم کر دیں، پبلک فگر پر بے شک تنقید کریں کہ کرپشن کر لی، مگر یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی بیٹی بھاگ گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے لیے سول قوانین موجود ہیں، کوئی سوشل میڈیا سے کیوں پریشان ہو؟ اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی طرف سے اسٹیٹمنٹ دے رہے ہیں وہ بہت مناسب ہیں، اٹارنی جنرل نے ایف آئی اے اور وفاقی حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی ہے کوئی متاثر نہیں ہو گا، سیکشن 20 پارلیمنٹ نے بنایا ہے ہتک عزت کو کرمنالائز کیا ہے، پارلیمنٹ کے بنائے ایکٹ کو معطل نہیں کر سکتے اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے، ہو سکتا ہے کہ سارے سٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھیں تو یہ آرڈی نینس ہی واپس ہو جائے، اگر یہ قانون رہا تو سارے سیاست دان بھی اور وی لاگرز بھی اندر ہوں گے، یہ عدالت پاکستان کو بھارت بنانے کی اجازت نہیں دے گی۔
پی ایف یو جے کے وکیل نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے آدھے آرڈی نینس کی حد تک تو خود ہی کہہ دیا کہ وہ اسے ڈیفنڈ نہیں کرتے، ہم ان کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں۔
اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ جب تک کورٹ کے سامنے رپورٹ نہیں ہوتی تب تک ترمیمی آرڈیننس کے تحت عمل نہیں ہو گا، ترمیمی آرڈینس کے تحت جب تک عدالت کے سامنے رپورٹ نہیں آجاتی ایف آئی اے کوئی گرفتار نہیں کرے گی، جب تک عدالت کے پاس کوئی رپورٹ نہیں آتی اس وقت تک ترمیمی آرڈی نینس کے تحت کوئی کارروائی نہیں ہو گی، ایف آئی اے سیکشن 20 کے تحت کای کو گرفتار نہیں کرے گی، وزیر اعظم کچھ وجوہات کی بنا پر مصروف ہیں اس سے لیے زیادہ وقت دیا جائے، انشا اللہ اس Milestone سے نکل جائیں گے ۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کی سیکشن 20 پر عمل روک دیا اور پیکا ترمیمی آرڈیننس پر تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے، پیکا ترمیمی آرڈیننس کی سیکشن 20 کا دفاع نہیں کرسکتا، وزیر اعظم کو پیکا ترمیمی آرڈیننس سیکشن 20 پر آگاہ کیا تو انہوں نے کہا “یہ کیسے ہوگیا؟” میں خود کہہ چکا ہوں کہ پیکا ترمیمی آرڈی نینس کی موجودہ شکل میں اس کے ڈریکونین اثرات ہوں گے۔
چیف کیس نے کہا کہ اگر ہتک عزت کو فوجداری بنایا گیا تو سارے منتخب نمائندوں اور وی لاگرز کو جیل جانا پڑے گا، وزیراعظم نے اٹارنی جنرل کو مینڈیٹ دیا ہے تو ان کو کوشش کرنے دیں، پٹیشن اس دوران زیر التوا رہیں گی، یہ کورٹ کو مطمئن کریں گے کہ ترمیمی آرڈی نینس کا غلط استعمال اور منفی اثرات نہیں ہوں گے، سول قوانین میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے، ان میں بھی بہتری لائیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو پیکا ترمیمی آرڈی نینس کے سیکشن 20 پر حتمی دلائل کی ہدایت کردی۔