وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے مطالبے پر عبدالعلیم خان اور ترین گروپ کی راہیں جدا

وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے مطالبے پر عبدالعلیم خان اور ترین گروپ کی راہیں جدا
سردار عثمان بزدار کو ہٹانے کے مطالبے پر عبدالعلیم خان اور ترین گروپ کی راہیں جدا ہو گئی ہیں۔ ترجمان علیم خان گروپ نے بیان میں کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو ہٹانے کا ہمارا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔

جی این این نیوز کے مطابق عبدالعلیم خان نے ترین گروپ سے علیحدگی کا فیصلہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی تبدیلی کے مطالبے پر کیا۔ ترجمان نے کہا کہ عبدالعلیم خان گروپ الگ ہے۔ ہم نے جہانگیرترین گروپ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

علیم خان گروپ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ہیں اورساتھ رہیں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی ہمارا مطالبہ نہیں ہے۔

https://twitter.com/gnnhdofficial/status/1501880639573962755?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1501880639573962755%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.siasat.pk%2Fforums%2Fthreads%2FD8B9D984DB8CD985-D8AED8A7D986-DAAFD8B1D988D9BE-D986DB92-D8AAD8B1DB8CD986-DAAFD8B1D988D9BE-D8B3DB92-D8B9D984DB8CD8ADD8AFDAAFDB8C-D8A7D8AED8AADB8CD8A7D8B1-DAA9D8B1D984DB8C.815936%2F

ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے ہم خیال گروپ نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے جبکہ جہانگیر ترین گروپ نے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

دوسری جانب خبریں ہیں کہ آصف نکئی اور صمصام بخاری نے بھی ترین گروپ کو چھوڑ دیا ہے۔ صوبائی وزیر ڈاکٹر اختر ملک کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ انہوں نے وضاحت کی ہے کہ ترین گروپ کے ناراض ساتھیوں کو منانے گیا تھا، جینا مرنا کپتان کے ساتھ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: علیم خان کے پاس 40 اراکین ہونے کا دعویٰ غلط، اطلاع حکومتی حلقوں کو بھی ہوچکی

خیال رہے کہ گذشتہ روز نیا دور کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی توصیف احمد خان نے کہا تھا کہ علیم خان کے پاس 40 اراکین ہونے کا دعویٰ غلط ہے، ان کے پاس صرف 3 ممبران موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ اطلاع حکومتی حلقوں کو بھی ہو چکی ہے۔

توصیف احمد کا کہنا تھا کہ علیم خان کی انٹری کی وجہ سے ترین گروپ کے اندر اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علیم خان کو ن لیگ کی تھپکی دی گئی ہے۔ جہانگیر ترین کی رہائشگاہ پر اہم اعلان سے قبل انہوں نے اپنے گروپ کے اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں 10 اراکین اسمبلی نے شرکت کی اور دو صوبائی وزارا نے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی جبکہ 10 میں سے 3 اراکین نے ن لیگ کی ٹکٹ پر ان کے ساتھ چلنے کی آمادگی ظاہر کی۔ 3 نے کسی بھی پیشکش کو مسترد کر دیا جبکہ 4 نے اپنی رائے کو محفوظ رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ علیم خان کے جہانگیر ترین کیساتھ رابطے بحال ہوئے ہیں لیکن ان کا سب سے زیادہ رابطہ ن لیگ کیساتھ ہے۔ انھیں رابطوں کی وجہ سے وہ ترین گروپ کیساتھ ملاقات کیلئے پہنچے تھے۔وہاں جا کر ان کے اندر ایک خواہش پیدا ہو گئی کہ کیوں نہ میں اتنے بندے اکھٹے کر لوں تاکہ میں خود ہی وزارت اعلیٰ کا امیدوار بن جائوں لیکن آصف نکئی نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا، اس لئے علیم خان کوئی فیصلہ نہ کروا سکے۔

انہوں نے کہا تھا کہ دوسری جانب آصف نکئی اور دیگر لوگوں نے اکھٹے ہو کر اپنا ایک الگ گروپ بنا لیا ہے۔ علیم خان بڑے سٹیک ہولڈر کے منظور شدہ نہیں اور نہ ہی ن لیگ کے ہی وزیراعلیٰ ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ سب نے مل کر ق لیگ کی چھٹی کروا دی ہے۔

توصیف احمد خان نے کہا تھا کہ علیم خان کے پاس 40 اراکین کا دعویٰ غلط ہے، ان کے پاس صرف 3 ممبران موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ اطلاع حکومتی حلقوں کو بھی ہو چکی ہے۔ اس لئے جمعرات کے روز وزیراعظم عمران خان ان ایم پی ایز کیساتھ بھی ملیں گے جن کیساتھ علیم خان نے رابطہ کیا تھا۔