ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملکی سیاسی صورتحال اور اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کے حوالہ سے اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
فواد چودھری کا کہنا تھا کہ سیاسی محاذ پر حکومت مکمل اعتماد کے ساتھ کھڑی ہے۔ اپوزیشن کے چہروں سے پتا چل رہا ہے کہ حالات کدھر جا رہے ہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے پاک فوج کے خلاف ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان، نواز شریف اور آصف زرداری افواج پاکستان کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ڈان لیکس، بھارتی تاجروں اور نریندر مودی سے نواز شریف کی ملاقاتیں اور فوج مخالف بیانات اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ شریف خاندان کی سازشی سیاست کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا فیصلہ پاکستان کے عوام نے کرنا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ 23 مارچ کی تقریب سے قبل یہ سیاسی ڈرامے ختم ہو جائیں۔ الحمدللہ اس وقت پاکستان میں مکمل اتحاد ویگانگت ہے۔ تمام اداروں اور حکومت کی طرف سے عوام کو یہ یقین دلا چکے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزادانہ اور خود مختاری پر مبنی اور ملکی مفاد میں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے زیر صدارت بنی گالہ میں سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نے کہا کہ سیاسی محاذ پر ہم پورے اعتماد سے کھڑے ہیں اور وزیراعظم کا بیان حکومت کی سیاسی پالیسیوں سے بھی جھلک رہا ہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں جس بات پر سب سے زیادہ تشویش کا اظہار کیا گیا وہ یہ تھی کہ اپوزیشن کی ایک پوری مہم ہے جو پاکستان کی فوج کے خلاف چلائی جا رہی ہے۔ بارہا ہم نے تنبیہ بھی کی ہے کہ سیاست کو اس طرح سے گندا نہ کریں۔ مولانا فضل الرحمن کے کل کے انٹرویو سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ہے۔
انہوں نے مولانا فضل الرحمان کی گفتگو والا ویڈیو کلپ بھی میڈیا کو سنایا جس میں فضل الرحمن نے جن اداروں میں اصلاحات کی بات کی یہ وہی اصلاحات ہیں جن کا اظہار نواز شریف اقتدار ملنے پر کیا کرتے تھے۔ نواز شریف اینڈ کمپنی نے ہمیشہ فوج کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ کل کے سوال کو بھی جوڑ کر دیکھیں تو جو ایجنڈا فضل الرحمان دے رہے تھے، وہ بھی فوج پر کنٹرول حاصل کر نے کی خواہشات کی بات تھی۔
فواد چودھری نے کہا کہ جب میمو گیٹ کا سکینڈل آیا تھا اس وقت بھی اسی قسم کی مہم چلائی گئی تھی۔ میمو گیٹ سکینڈل میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے احکامات پر مشتمل ویڈیو کلپ بھی میڈیا کو سنائے گئے۔ وزیر اطلاعات ونشریات نے کہا زرداری، فضل الرحمن اور نواز شریف کے فوج کو مسخر کرنے کے دیرینہ خواب کی عکاسی ڈان لیکس اور میمو گیٹ کے کلپس سے ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈان لیکس میں بھی اسی فوج مخالف ایجنڈے کا انکشاف ہوا۔ پھر نواز شریف نے بھارتی کاروباری شخصیات اور نریندر مودی سے ملاقاتیں کیں اور بھارتی صحافی برکھادت نے اپنی کتاب میں اس کا انکشاف کیا کہ کھٹمنڈو میں نواز شریف نے مودی سے ملاقات کی جو شیڈول نہیں تھی۔ اسی طرح نواز شریف کی نواسی کی شادی میں بغیر ویزہ کے مودی پاکستان آ گئے اور یہ وہی وقت تھا جب نریندر مودی نے پاکستانی فوجی سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کے بارے میں یہ بیان دیا کہ وہ تو دہشتگرد ہیں اور نواز شریف مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ اس کے بعد اسی نریندر مودی کو پاکستان بلایا گیا جب اس نے پاکستان کی افواج کے اوپر مہلک حملے کئے اور اسی وقت مودی نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کر رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس پر نواز شریف نے بھارت کو کیا پیشکش کی اس کا انکشاف بھی پاکستان کی سابقہ ترجمان نے اپنے انٹرویو میں کیا۔ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان بھارت نواز تھا کیونکہ ان کے کاروبار وہاں تھے۔ حکومت کی ایک دیرینہ خارجہ پالیسی رہی ہے کہ کوئی بھی پاکستانی سربراہ یا سینئر اہلکار بھارت جاتا تو حریت رہنمائوں سے ملاقات لازمی رکھی جاتی لیکن نواز شریف جب دہلی گئے تو انہوں نے کشمیری رہنمائوں سے ملاقات نہیں کی۔ ان کے دفتر سے واضح ہدایات تھیں کہ کلبھوشن کا نام دفتر خارجہ نے بھی نہیں لینا، اس کا فائدہ نواز شریف کو تو ہوا ہو گا لیکن پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ یہ ہدایات عین اس وقت دی جا رہی تھیں جب بھارتی وزیراعظم، پاکستانی آرمی چیف کو دہشت گردوں کا ساتھی اور نواز شریف کو مسائل کا مداوا قرار دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سازشی خاندان کی سیاست یہیں ختم نہیں ہوئی اور نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے بھی اپنے مختلف بیانات میں فوج پر رقیق حملے کئے۔ انہوں نے فوج کے حوالہ سے جو بیانات اور نعرے لگائے وہ بھی اس ویڈیو میں دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں جس میں مریم نواز،پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف کے بیانات بھی سنائے گئے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عدم اعتماد کی جو تحریک انہوں نے پیش کی اس میں یہ الزام لگا رہے ہیں کہ یورپی یونین پر وزیراعظم نے تنقید کیوں کی، ہم نے پہلے بھی ان سے پوچھا تھا کہ اپوزیشن کا یورپی یونین سے کیا رشتہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے تو بہت آسان اور سادہ بات کہی اور پو چھا جو خط آپ نے پاکستان کو لکھا کیا وہ بھارت یا کسی اور کو بھی لکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو پوچھ رہے تھے یورپی یونین کے ساتھ آپ کا کیا رشتہ ہے اس پر آج حمزہ شہباز اور اس سے پہلے مولانا فضل الرحمن بھی کہتے ہیں کہ وزیراعظم یورپی یونین پر بات کیوں کرتے ہیں، دراصل ان کے یہ بیانات پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کی تکلیف ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے لندن اور یورپ میں پڑے ان کے پیسوں کا محافظ بننا ہے یا آزادانہ اور خود مختار پالیسی کو آگے لے کر چلنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف یہ فوج کو نشانہ پر رکھے ہوئے ہیں اور دوسری جانب یہ چاہتے ہیں کہ ہم انجمن غلامان کی طرح زندگی بسر کریں۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ الحمد ﷲ اس وقت پاکستان میں مکمل اتحاد و یگانگت ہے، تمام اداروں اور حکومت کی طرف سے عوام کو یہ یقین دلا چکے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزادانہ اور خود مختاری پر مبنی اور ہمارے ملکی مفاد میں ہو گی، ہمارے مفاد میں یہ بھی شامل ہے کہ مغربی ممالک کا جو بلاک ہے ہم اس سے اچھے تعلقات کے حامی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اس خود مختاری کو ان کی خواہشات کا غلام بنا دیں، ہم نے اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کے تابع رکھنی ہے، ہماری تجارت ضرور یورپ کے ساتھ ہے، ہم اپنی غیرت کو بیچ کر تجارت نہیں کر رہے، تجارت کی انہیں بھی ضرورت ہے اور ہمیں بھی ضرورت ہے، تجارتی تعلقات ایک دوسرے کے مفاد پر مبنی ہوتے ہیں جس قیادت کے پاس عزت نفس ہی نہ ہو، تو عام آدمی کے پاس کیسے عزت نفس ہو گی۔
فواد چودھری کا کہنا تھا کہ آج پورا پاکستان وزیراعظم پاکستان کے پیچھے کھڑا ہے اور ان شاء اﷲ ہم اسی آزادانہ خارجہ پالیسی کو آگے لے کر چلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کا اسلام آباد والے شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ کتنے لانگ مارچ اتنی ہنسی پر ختم ہوتے ہیں جیسا پیپلز پارٹی کا ختم ہوا، قہقہوں اور ہنسی پر مبنی لانگ مارچ پر ہم بھی ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک عدم اعتماد کی تحریک کا تعلق ہے اسلامی وزراء خارجہ کے وفود 21 مارچ سے آنا شروع ہو جائیں گے اور 23 مارچ کی پریڈ میں او آئی سی وزرائے خارجہ اور یورپی ممالک کے وزرا اور نمائندے بھی شرکت کریں گے، ہماری خواہش ہے کہ یہ سارے سیاسی ڈرامے اس تقریب سے پہلے ختم ہو جائیں اور اس کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم اس محاذ کے اوپر پراعتماد ہیں اور اس کے اوپر جو قانونی پوزیشن ہے بالکل واضح ہے، سپیکر کے پاس یہ مکمل اختیار ہے کہ وہ ان لوگوں کے ووٹ قبول نہیں کریں گے جو پارٹی مینڈیٹ کے خلاف جائیں گے اور آرٹیکل 63 اس حوالہ سے بالکل واضح ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت 179 لوگوں کی ہمیں مکمل حمایت حاصل ہے اور امید ہے کہ 5 مزید لوگوں کی حمایت مل جائے گی، اپوزیشن نے 172 ارکان لانے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 163 کے تحت خلاف ورزی کو روکنا ہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو وزیراعظم اور پارلیمانی پارٹی کا اعتماد حاصل ہے اور جب تک یہ اعتماد ہے وہ وزیراعلیٰ ہیں اور رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک کے پیچھے بھارت سے سپورٹ ہو رہی تھی اور اس کی تردید نہیں آئی، آرٹیکل 63 ون اے مختلف ہے اور آرٹیکل 63 کی شق 2 الگ ہے، آرٹیکل 63 ون اے کہتا ہے کہ اگر ایک آدمی اپنی پارٹی چھوڑ رہا ہے اور دوسری پارٹی میں جا رہا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا ڈیکلیئریشن ختم ہو جاتا ہے۔
ایک سوال میں انہوں نے کہا کہ ہماری آئینی سکیم ہے اس میں فوج حکومت کے ساتھ ہوتی ہے، فوج نے تو اپنے آئین پر عمل کرنا ہے اور وہ اس پر عمل کرے گی، جہانگیر ترین اور علیم خان سے بھی رابطے میں ہیں اور بات چیت رہے گی متحدہ قسم کا ردعمل دیں گے۔