تحریر:( سیدہ ثناء بتول) آسمان پر چمکتا ہوا پورا چاند، گرمیوں کی راتیں اور آم کے پیٹ پر چٹکتی کلیاں، رات کی رانی اور چنبیلی کی خوشبو سے مہکتے آنگن اور ٹھنڈی شامیں، صبح کا آغاز اور ٹھیلے والوں کی گلیوں میں آوازیں "سبزی لے لو"۔ دن چڑھتے بڑھتا ہوا ٹریفک کا شور اور اونچی عمارتوں پر سورج اپنی آب و تاب کیساتھ چمکتا ہے۔ کہیں مزدور تو کہیں تلاش معاش میں سرگرداں افراد اپنی اپنی منزل کی تلاش میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں غریب بھوکا تو نہیں رہتا، ناشتے کے دسترخوانوں پر آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے لیکن کبھی کبھی سٹی کورٹ کے سامنے احتجاج کرتے بوڑھے ماں باپ کی زندگی کی شام ہو جاتی ہے۔
اس خرابیوں سے بھرے سادہ لیکن سحر انگیز شہر سے اگر آپکا تعلق کسی بھی حوالے سے ہے تو آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آپ کو اس شہر سے، اس کے سناٹوں سے، اسکی رونقوں سے اور اس کے ساحلوں پر اٹھتی موجوں کہ گدلے پانی سے کیوں محبت ہے؟
آپ کو ہرگز کسی پر یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ اسکی بے رنگینی، اجاڑ حالت، بکھری ہوی تا حد نظر خلقت ، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، تاریک بند گلیوں، گڈ مڈ رستوں، کانوں کو چیرتے ہوے ٹریفک کے شور سے اتنی انسیت کیوں ہے؟ کیونکہ دو کروڑ سے زائد آبادی میں بسنے والا ہر شخص آپکے دل کی حالت سمجھتا ہے۔
کہتے ہیں پاکستانی دنیا میں کہیں بھی چلے جایئں لیکن انکا دل پاکستان میں ہی رہتا ہے۔ میں یہ بات سو فیصد یقین سے کراچی کیلئے بھی کہ سکتی ہوں۔ کراچی والے پاکستان کے کسی کونے میں چلے جائیں انکا دل اس ہی شہر میں رہتا ہے۔
دیکھا جائے تو، نہ تو اس شہر میں کوئی سیر و سیاحت کی جگہیں ہیں اور نہ ہی کوئی خوبصورتی، یہاں کی خوبصورتی کچھ خاص چیزوں میں ہے جسے یہاں بسنے والے ہی محسوس کرسکتے ہیں۔
میں نے اس شہر کو کئی ادوار سے گزرتے دیکھا ہے، جلتے ہوے ٹائروں اور گاڑیوں کے بیچ سے اسکول وین میں بیٹھے بچوں کو اسکول جاتے ہوئے، تو کبھی پتھراو کے بیچ سے ایک بوڑھے آدمی کو اپنی پرانی موٹرسائیکل پہ دفتر جاتے ہوئے، کبھی سائیکلون الرٹ ہوا تو پورے شہر کو سی ویو پر جمع ہوتے دیکھا۔
چودہ اگست اور نیو ائیر پر سائلینسر نکلی ہوئی، چنگھاڑتی ہوئی موٹر سائیکلوں کی ریس سے لے کر ورلڈ کپ اور ٹی ٹونٹی میں پاکستان کی جیت کے بعد منچلے نوجوانوں سے لے کر بوڑھوں کا چوراہوں پر رقص۔
اس شہر کا حسن اس میں رہنے والے بے خوف لوگوں میں ہے کہ جنہوں نے حالات کا مقابلہ کیا لیکن اس شہر کی رونقوں کو ماند نہیں پڑنے دیا۔
لیاری سے لے کر ڈیفینس، کالے پل سے لے کر طارق روڈ اور گلستان جوہر سے لے کر نارتھ کراچی اور نارتھ ناظم آباد تک، کراچی نے اپنے دامن میں ہر رنگ و نسل کو سمیٹا ہوا ہے۔
ایک وقت تھا جب اس شہر نے لاشوں کے انبار دیکھے، کتنے ہی بے گناہوں کا لہو اس شہر کی مٹی میں جذب ہے، اسکی رونقوں کے ساتھ اس شہر خرابی کی مظلومیت کے قصے، ایک وقت تھا جب دنیا کی زباں پر ہوتے تھے لیکن یہاں کہ بسنے والے ان حالات میں بھی دنیا کو جینا سکھاتے رہے۔ اس کی گلیوں میں کھیلتے بچے کبھی ڈر خوف سے گھروں میں نہ بیٹھے۔
اس شہر پہ وہ وقت بھی آیا جب کچھ اسکے چاہنے والے مایوس ہو کر اس شہر کو چھوڑ گئے۔ اس کے دامن میں وہ آنسو آج بھی جذب ہیں جو شاید ایک جانے والے نے اس شہر سے جدا ہوتے ہوے بہائے۔ وہ لوگ تو شاید لوٹ کر نہ آسکے لیکن کراچی انکے دلوں میں کسی پرانے کھوئے ہوے ساتھی کی یاد کی مانند اکثر لوٹ آتا ہے۔
بات اگر کھانوں کی ہو تو چاہے پاکستان چوک پر ناشتہ ہو یا برنس روڈ پر بن کباب اور چائے ،صدر میں اسٹوڈنٹس بریانی ہو یا زاھد کی نہاری، مجھے نہیں معلوم یہاں سے چلے جانے والے اس شہر کی رونقوں کے بغیر کیسے رہتے ہیں۔
مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ شہر اپنی تمام تر کمی اور زیادتیوں کے ساتھ مجھے عزیز ہے۔ پچھلے دنوں ایک خبر پڑھی جس کے مطابق کراچی جرائم پیشہ شہروں کی فہرست میں چھٹے نمبر سے سترویں نمبر پر آچکا ہے۔
اطمینان کی ایک لہر ذہن کہ پیچیدہ، گھٹے ہوئے گوشوں میں دوڑ گئی اور دل و دماغ اس شہر خرابی کے پوشیدہ حسن کی جانب پھر مائل ہو گیا۔